اسلام آباد (این این آئی)وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے مطالبہ کیا ہے کہ پارلیمنٹ تحقیقات کرے کہ ہم ایف آئے ٹی ایف کے ممبر کیوں نہیں بنے؟۔ منگل کوقومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال 2019-20کے بجٹ پر اظہار خیال کرتے ہوئے وفاقی وزیر شیریں مزاری نے کہاکہ گزشتہ روز مراد سعید نے بتایا کہ کیسے ہمارے لیڈرز بیرون ممالک میں جا کر این آر او مانگتے تھے۔ انہوں نے کہاکہ اس بات کی تحقیقات ہونی چاہیے کہ سی آئی اے کو پاکستان کے لیڈروں نے فون ٹیپ کرنے کی کس نے اجازت دی۔
انہوں نے کہاکہ بھارت عالمی عدالت میں کلبھوشن جادیو کا کیس لے گیا۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان بھارت کے درمیان ہمارا قونصلر رسائی کے حوالے سے ایک دو طرفہ معاہدہ ہوا تھا۔ انہوں نے کہاکہ اس معاہدے کو ماضی کی حکومت نے اقوام متحدہ میں رجسٹرڈ نہیں کروایاانہوں نے کہاکہ اسی وجہ سے بھارت کلبھوشن کا کیس عالمی عدالت انصاف لے گیا، اور انکی درخواست منظور ہوئی۔ انہوں نے کہاکہ آئی سی جے کو کہا تو انہوں نے کہا کہ آپ نے تو معاہدہ رجسٹرڈ ہی نہیں کروایا۔ انہوں نے کہاکہ ماضی کی حکومت کے اس عمل کی تحقیقات ہونی چاہیے کہ کس نے غلطی کی۔ انہوں نے کہاکہ اس وقت کے سیکریٹری خارجہ اور وزیر خارجہ سے سوال پوچھا جائے کہ یہ کوتائی کیوں ہوئی؟۔ انہوں نے کہاکہ اپنی منی لانڈنرنگ چھپانے کیلئے ماضی کی حکومتوں نے ایف اے ٹی ایف کی رکنیت نہیں لی۔ انہوں نے کہاکہ بھارت نے1998 میں ایف اے ٹی ایف کی رکنیت حاصل کرلی۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان دو ہزار دس تک کسی بلیک لسٹ میں نہیں تھا، تب ہم ایف اے ٹی ایف کے ممبر کیوں نہیں بنے۔ انہوں نے کہاکہ دو ہزار تیرہ میں ہم ایف اے ٹی ایف کے کیلئے اپلائی نہیں کر سکتے تھے کیونکہ ہم بلیک لسٹ تھے۔انہوں نے کہاکہ اپنی منی لانڈرنگ کو بچانے کیلئے ایف اے ٹی ایف کی ممبر شپ نہیں حاصل کی گئی۔ انہوں نے کہاکہ ہم ایف اے ٹی ایف کے ممبر ہوتے تو آج ہمیں اس کا یہ مسئلہ نہ بھگتنا پڑ رہا ہوتا،ایف اے ٹی ایف کی مصیبت گزشتہ حکومتیں لائی ہیں۔انہوں نے کہاکہ
لیڈرز خود منی لانڈرنگ کر رہے تھے انکی چوری پکڑی جاتی ۔ انہوں نے کہاکہ پارلیمنٹ تحقیقات کرے کہ ہم ایف آئے ٹی ایف کے ممبر کیوں نہیں بنے۔ وفاقی وزیر فواد چوہدری نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ میں احتجاج کرونگا کہ میرا وقت شیریں مزاری نے لیا،کفایت شعاری مہم کے باوجود کافی صرف انکے چیمبر سے ملتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ چاند دیکھنے کے لیے ٹیکنالوجی استعمال ہوگی۔ انہوں نے کہاکہ انیس سو تریسٹھ میں پاکستان اپنا سپیس پروگرام چلا رہا تھا۔
انہوں نے کہاکہ پاکستان کی اٹامک انرجی کی بنیاد رکھی گئی۔انہوں نے کہاکہ ترقی کی یہ منزل درمیان میں کہیں کھو گئی۔ انہوں نے کہاکہ ایک طویل عرصے کے بعد حکومت نے ترتالیس ارب ٹیکنالوجی کے لیے رکھا۔انہوں نے کہاکہ کچھ لوگ فوج پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ فوج میں زیادہ طاقت آ گئی ہے۔ انہوں نے کہاکہ فوج ایک اہلیت پسند ادارہ ہے، جہاں فوج میں جنرل کا بیٹا میجر کے بعد براہ راست جنرل نہیں لگ سکتا،ہمیں اپنے سول ادارے مضبوط کرنا پڑیں گے،
صرف تنقید سے کچھ نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ پلوامہ کے بعد پاکستان کی فوج کے بجٹ میں اضافہ ہونا چاہیے تھا لیکن فوج نے بجٹ میں اضافہ نہیں لیا۔ انہوں نے کہاکہ حکومت پاکستان نے اپنے اخراجات میں کمی کی ہے۔ انہوں نے کہاکہ جب ہم کہتے ہیں چوبیس بلین میں کیا کیا تو جواب ہے میں جانو میرا خدا جانے۔ انہوں نے کہاکہ میرے احتساب کے بیان کو سیاق وسباق سے ہٹ کر لیا گیا،نیب پہلے بھی موجود تھا اپنے بیان ہر قائم ہوں۔انہوں نے کہاکہ اگر کرپشن کے خلاف کسی نے بیانیہ بنایا
وہ صرف عمران خان اور تحریک انصاف نے بنایا۔انہوں نے کہاکہ اسپیکر صاحب پروڈکشن آرڈر جاری کیے کہ بجٹ اجلاس میں شرکت کریں گے لیکن ایسا نہیں ہے۔ انہوں نے کہاکہ بجٹ اجلاس میں یہ شرکت ایسے کرتے ہیں جیسے آٹے میں نمک ہوتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ عمران خان کہا تھا رلاؤں گا،رلا دیا،ہم نے کہا تھا چوروں کو پکڑیں گے پکڑ لیا۔خواجہ آصف نے ایوان میں فواد چودھری کو جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ رل تے گئی آں ہیں چس وی نہیں آئی ہے۔ انہوں نے کہاکہ فواد چودھری کے ساتھ
جو ان کی پارٹی نے کیا وہ کوئی اور نہیں کرسکتا۔ انہوں نے کہاکہ فواد چودھری کے خاندان کے ساتھ پرانا تعلق ہے میں اس تعلق کی پاسداری کروں گا۔ انہوں نے کہاکہ میثاق معیشت کے حوالے علی محمد خان کو ہمارے پاس بھیجا گیا۔ انہوں نے کہاکہ بجٹ پر ہمارے اپنی رائے اور تحفظات ہیں۔انہوں نے کہاکہ میثاق معیشت اپوزیشن اور حکومت نہیں سیاسی جماعتوں میں ہونا چاہیے۔انہوں نے کہاکہ بجٹ سے پہلے ہم سے مشاورت کیوں نہیں کی گئی۔ انہوں نے کہاکہ اسی لیے اس معیشت کو میں نے موجودہ حالات
میں مذاق معیشت کہا۔وفاقی وزیر آبی وسائل فیصل واوڈا نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ ماضی میں ترقیاتی منصوبوں میں تاخیر سے اربوں روپے کا اضافہ ہوا۔ انہوں نے کہاکہ منصوبوں میں اضافی لاگت سے پاکستانی قوم کا پیسہ تباہ ہوا۔انہوں نے کہاکہ داسو ڈیم پر یومیہ 36 کروڑ کا نقصان ہو رہا ہے۔انہوں نے کہاکہ گزشتہ حکومتوں نے ملک کو قرضوں کے بوجھ تلے دبا دیا۔ انہوں نے کہاکہ سیاسی مخالفت کی وجہ سے کوئی کیس غلط نہیں بنایا جائیگا۔ انہوں نے کہاکہ میں نے نوکریاں نہ ملنے پر
تکہ بوٹی کرنے کا کہا تھا کھانے کا نہیں۔ انہوں نے کہاکہ آپ نے کھانے کی بات اس لئے کہ آپکو کھانے کی عادت ہے۔ انہوں نے کہاکہ شہباز شریف کو چیلنج دیتا ہوں ووٹوں کی گنتی کرائیں۔ انہوں نے کہاکہ اگر وہ جیتے تو میں استعفیٰ دونگا،نہیں تو وہ استعفیٰ دیں۔انہوں نے کہاکہ اگر گزشتہ حکومت میں سب اچھا تھا تو نواز شریف جیل اور مریم نواز ضمانت پر کیوں ہیں؟انہوں نے کہاکہ ماڈل ٹاؤن میں 14 لاشوں کا جواب کون دیگا۔قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے پارلیمانی امور کے
وزیر مملکت علی محمدخان نے کہاکہ اس ایوان میں دونوں جانب غلامان رسولِ بیٹھے ہیں۔انہوں نے کہاکہ پہلا وزیراعظم ہے جو مدینہ جاتا ہے تو احتراماً ننگے پاؤں جاتا ہے۔انہوں نے کہاکہ جب عمران خان اقتدار میں نہیں تھے تو ایک عالمی کانفرنس میں اس لئے شرکت نہیں کی کہ اس میں ملعون سلمان رشدی شریک تھا۔انہوں نے کہاکہ ہمیں ایک دوسرے پر کفر کے فتوے نہیں لگانے چائیں۔انہوں نے کہاکہ جو مسئلے ماضی کی حکومتیں حل نہیں کر سکیں وہ بھی عمران خان حل کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ پہلی بار ایسا شخص وزیراعظم بنا جو ریاست مدینہ کی بات کرتا ہے۔وفاقی وزیر فہمیدہ مرزا نے کہاکہ مشکل حالات میں مشکل بجٹ آیا ہے،18 ویں ترمیم کے وقت میں سپیکر قومی اسمبلی تھی اور وقت تمام صوبوں کی نمائندگی کو سامنے رکھتے ہوئے کمیٹی قائم کی،افسوس جس وجہ سے کمیٹی بنائی گئی تھی کہ آئین کو اس کی حالت میں بحال کیا جائے گا مگر وہ نہ ہوسکا۔ انہوں نے کہاکہ 18 ویں ترمیم منظور ہوگئی مگر بلوچستان، جنوبی پنجاب سمیت پسماندہ علاقوں کا احساس
محرومی دور نہیں ہوا۔ انہوں نے کہاکہ 18 ویں ترمیم میں صوبوں کا حصہ بجٹ میں 60 فیصد ہے، آج زراعت، تعلیم، صحت صوبوں کے پاس ہے،افسوس ان تمام شعبوں کی صورتحال دگر گوں ہے، جب آپ اختیار لیتے ہیں تو پھر ذمہ داری بھی اٹھانا چاہیے۔ انہوں نے کہاکہ افسوس آج سندھ کی صورتحال خصوصاً تعلیم کی صورتحال انتہائی دگر گوں ہے۔ انہوں نے کہاکہ 9 سال میں آپ سندھ میں کوئی تعلیمی پالیسی نہیں بناسکے، آج 10 ماہ کی حکومت سے جواب مانگ رہے ہیں۔انہوں نے کہاکہ لیونگ سٹینڈرڈز چیک کرنا ہیں تو بدین، تھر جائیں، ایچ آئی وی ایڈز نے لوگوں کی زندگی تباہ کردی۔انہوں نے کہاکہ کتنی بار کہا گیا کہ اللہ کے ناموں کے نیچے جھوٹ مت بولیں۔ انہوں نے کہاکہ جمہور کو مار کر جمہوریت کو پروان نہیں بڑھایا جاسکتا۔انہوں نے کہاکہ 18 ویں ترمیم چند خاندانوں کے لئے نہیں آرٹیکل 37 اور 38 کا عمل درآمد ہونا تھا کیا ہوا؟۔ انہوں نے کہاکہ سندھ حکومت کو نمائندے نہیں غیر منتخب نمائندے چلا رہے ہیں، غیر منتخب ہی سندھ پر قابض ہیں۔فہمیدہ مرزا کے خطاب کے دوران پیپلز پارٹی کے ارکان نے نعرے لگائے جس پر ڈپٹی سپیکر نے ڈانٹ دیا۔فہمیدہ مرز انے کہاکہ پارلیمنٹ کو مضبوط کرنے کے لئے ضروری ہے کہ پارلیمنٹ کو اس یرغمالیت سے نکالا جائے۔ انہوں نے کہاکہ سندھ میں آج بھی ہاریوں کو پانی تک نہیں دیا جارہا۔ انہوں نے کہاکہ یہ کس قسم کا انتقام ہے کہ جمہوریت کے بہانے سندھ کے عوام سے انتقام لے رہے ہیں، جو مشکل میں آپ کے ساتھ تھے۔ انہوں نے کہاکہ نیشنل فنانس کمیشن کا نام لینے والے صوبے میں کیوں فنانس کمیشن نہیں بناتے۔ انہوں نے کہاکہ آپ مفاہمت کی بات کرتے ہیں تو پھر عوام کے ساتھ مفاہمتی پالیسی کیوں نہیں؟ بدین کو صوبے میں اس کا حق دیا جائے۔ انہوں نے کہاکہ زرعی شعبے پر ٹیکس کو کم کیا جائے، فرٹیلائزرز پر جے آئی ٹی سی کو ختم کیا جائے۔ انہوں نے کہاکہ ٹیلی میٹری سسٹم کو تمام اضلاع میں لگایا جائے، لوئر سندھ کو پانی دلایا جائے۔ انہوں نے کہاکہ ایجوکیشن، صحت کے معاملات پر صوبوں کے ساتھ بیٹھنے کو تیار ہیں۔ انہوں نے کہاکہ وزیراعظم عمران خان کو مشورہ ہے کرپشن کے خاتمے کے لیے احتساب، احتساب اور صرف احتساب کیا جائے۔پیپلز پارٹی کے نعمان شیخ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ بجٹ دیکھ کر اسحاق ڈار معصوم نظر آرہے ہیں،زرداری صاحب اتنے برے لگتے تھے تو آپ نے ساری ٹیم ان کی کیوں لے لی،کہتے تھے سیکیورٹی نہیں لینگے، موٹر سائیکل پر آئینگے لیکن آج بنی گالا جاکر دیکھیں کتنی سیکیورٹی لگی ہے۔ انہوں نے کہاکہ افسوس ایسے افراد کے پاس ملک کی باگ ڈور آگئی ہے جنہیں ملکی نظام کا کچھ علم نہیں۔ انہوں نے کہاکہ زلفی بخاری کی آف شور کمپنی جائز، علیم خان کی ضمانت ہوسکتی ہے، مگر باقیوں کے لیے احتساب۔ انہوں نے کہاکہ ہم احتساب سے نہیں ڈرتے، لیکن وہ مساوی بنیادوں پر ہونا چاہیئے۔ انہوں نے کہاکہ ہمیں چور ڈاکو کہنے والوں نے ہمارے لوگ اپنے ساتھ شامل کرکے حکومت ہی چور ڈاکوؤں کے حوالے کردی،کم از کم انسان کا ضمیر تو زندہ ہونا چاہیے۔انہوں نے تقریر کے اختتام پر حکومت کے لئے تنقیدی انداز میں دعائیہ کلمات بھی کہے، پیپلز پارٹی کے ارکان نے آمین کی صدائیں لگائیں۔