اسلام آباد (این این آئی) نیشنل کمیشن برائے انسانی حقوق (این سی ایچ آر) نے کہا ہے کہ گزشتہ برس بیرون ملک مقیم 80 ہزار پاکستانیوں کو ملک بدر کیا گیا جن میں نصف تعداد سعودی عرب سے آئی ہے۔نجی ٹی وی کے مطابق ’انسانی سمگلنگ کی لعنت اور پاکستان کا ردِ عمل‘ کے عنوان سے تیار رپورٹ جسے آئندہ ماہ شائع کیا جائے گا۔ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کے اندر ہی بڑی تعداد میں خواتین اور بچوں کی اسمگلنگ کی جاتی ہے تاہم وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کو
اس کیخلاف کام کرنے کا اختیار حاصل نہیں۔این سی ایچ آر کی اس رپورٹ کے محقق غلام محمد کے مطابق انہوں نے اپنی رپورٹ میں ایسے 50 پاکستانیوں کا انٹرویو کیا ہے جو غیرقانونی طریقے سے پاکستان سے باہر گئے۔انہوں نے کہا کہ ان انٹرویوز میں یہ بات سامنے آئی کہ جو لوگ متعدد کوششوں کے باوجود مغربی ممالک میں پہنچنے میں ناکام ہوجاتے ہیں اور انسانی اسمگلنگ گروپ کے ایجنٹ بن جاتے ہیں کیونکہ انہیں مغربی ممالک تک پہنچنے کے راستوں کے بارے میں مکمل معلومات حاصل ہوجاتی ہے۔غلام محمد نے کہاکہ سب سے تکلیف دہ بات جو سامنے آئی وہ نوجوان لڑکیوں سے متعلق تھی کیونکہ انہیں یہ کہہ کر مشرق وسطیٰ لے جایا جاتا ہے کہ وہ وہاں انہیں بہترین نوکری ملے گی لیکن وہاں پہنچا کر ان سے جسم فروشی کا کام لیا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ خواتین واپس پاکستان بھی نہیں آسکتیں کیونکہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ سماجی دباؤ کی وجہ سے ان کے اہلِ خانہ انہیں قبول نہیں کریں گے۔غلام محمد نے انکشاف کیا کہ زیادہ تر انسانی اسمگلنگ پاک،ایران سرحد پر تافتان کے علاقے سے کی جاتی ہے جہاں ایف آئی اے کی صرف ایک ہی چیک پوسٹ موجود ہے۔ایف آئی اے کا دفاع کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ اس معاملے میں ہم ایف آئی اے کو موردِ الزام نہیں ٹھہرا سکتے کیونکہ پورے پاکستان میں اس کے صرف 4 ہزار 5 سو اہلکار ہیں اور اتنی قلیل تعداد سے
انسانی اسمگلنگ کو نہیں روکا جاسکتا۔انہوں نے کہاکہ غیر قانون طریقے سے پاکستان سے باہر جانے کی کوشش کرنے والوں میں زیادہ تعداد گجرات اور منڈی بہاؤالدین کے رہائشیوں کی ہے جبکہ کئی پاکستانی ایسے ہیں جو حج اور عمرہ کرنے کیلئے سعودی عرب جاتے ہیں لیکن واپس نہیں آتے۔انہوں نے تجویز پیش کی کہ پاکستان میں ہی انسانی اسمگلنگ روکنے کیلئے ایف اے کے اختیارات کو بڑھانا ہوگا۔ایک بیان میں این سی ایچ آر کے چیئرمین جسٹس (ر) علی نواز چوہان نے کہا کہ
پاکستان کے مختلف حصوں سے مردوں، خواتین اور بچوں کی انسانی اسمگلنگ کی جاتی ہے، جن میں صوبہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد آسان ہدف ہوتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ غیر قانونی طریقوں سے آسٹریلیا اور یورپی ممالک میں داخل ہونے والوں میں پاکستانی شہری 10ویں نمبر پر ہیں،اس کے علاوہ پاکستان میں غیرقانون طور پر داخل ہونے والے افغان شہری یورپ جانے کیلئے پاک،ایران سرحد کا ہی استعمال کرتے ہیں۔چیئرمین این سی ایچ آر کے مطابق پاکستانیوں کیلئے آسان اہداف خلیجی ممالک ہوتے ہیں جہاں وہ بطور ملازم کام کرتے ہیں جبکہ دبئی انسانی اسمگلروں کیلئے جسم فروشی کی ایک بڑی مارکیٹ کے طور پر کام کرتا ہے جہاں نوکری کا جھانسا دے کر معصوم لڑکیوں اور خواتین کو فروخت کیا جاتا ہے۔