اسلام آباد (آن لائن) سینیٹ میں کم عمری کی شادی پر پابندی کا ترمیمی بل کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا، بل پیپلزپارٹی کی خاتون رکن شیری رحمن نے پیش کیا جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی سمیت وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نور الحق قادری نے بل کی مخالف کی گئی بل کی منظوری کے وقت جے یو آئی اور جماعت اسلامی کے اراکین سینیٹ نے احتجاجاً واک آؤٹ کیا اور بل شریعت کے خلاف قرار دیا
سوموار کے روز سینیٹر شیری رحمن کی جانب سے کم عمری کی شادی پر پاندی کے ایکٹ 1929 ء میں مزید ترمیم کے بل کا بل پیش کای گیا اس موقع پر جمعیت علمائے اسلام کے سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ نکاح کیلئے 18 سال کی عمر مقررک رنا شریعت کے خلاف ہے شریعت میں نکاح کیلئے بلوغت شرط ہے انہوں نے کہا کہ خلاف شریعت قانون سازی درست نہیں ہے اس بل کو پہلے اسلامی نظریاتی کونسل کو بھجوایا جائے تاکہ اس حوالے سے سفارشات سامنے آسکیں۔ سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہا کہ جس دن یہ بل پیش ہوا تھا اس دن بھی مخالفت کی تھی اس کے بعد نہ تو مجھے کمیٹی میں بلایاگیا او رنہ ہی سنایا گیا ہے یہ درست بات نہیں ہے انہوں نے کہا کہ اچھی قانون سازی کیلئے اختلافات کو بھی سننا چاہیے انہوں نے کاہ کہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 2A کے خلاف ہے انہوں نے کہا کہ کم عمری کی شادی کے ہم سب خلاف ہیں تاہم بچے کے عمر پر اختلاف ہے انہوں نے کہا کہ شادی کیلئے 18 سال عمر مقرر کرنا خلاف شریعت ہے انہوں نے کہا کہ 12 ہزار خواتین اور 27 ہزار بچے دوران ولادت فوت ہوتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے پاس سہولیات نہیں ہیں انہوں نے کہا کہ پاکستان میں خواتین اور بچوں کو مناسب خوراک نہیں مل رہی ہے اور ریاست اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کررہی ہے انہوں نے کاہ کہ پاکستان میں جہیز‘ سیلاب اور زلزلوں کی وجہ سے شادیوں میں کمی ہورہی ہے ہمیں ایک قانونی راستہ شادی کی راہ میں مزید رکاوٹی نہیں لانی چاہیں
انوہں نے کہا کہ اس معاملے پر اسلامی نطریاتی کونسل کی سفارشات لینی چاہئیں۔ سینیٹر مولانا عطا الرحمن نے کجہا کہ سینیٹر شیری رحمن نے یقیناً ایک جذبے کے تحت یہ بل متعارف کرایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس بل سے معاشرے میں بے راہ روی بڑھ جائے گی انہوں نے کہا کہ اس بل سے معاشرے میں بگاڑ اور مسائل پیدا ہوں گے انہوں نے کہا کہ ہمیں اس بل پر شدید تحفظات ہیں اور اس اہم معاملے پر کسی بھی عالم دین کو نہیں بلایا گیا ہے
انہوں نے ایوان سے گزارش کی کہ اس حساس معاملے کو منظور کرنے سے قبل اسلامی نظریاتی کونسل کو بھجوایا جائے۔ سینیٹر مولانا فیض محمد نے کہا کہ بعض مسائل ایسے ہیں جن میں لاعلمی کی وجہ سے مسائل مزید بگڑ سکتے ہیں انہوں نے کہا کہ شریعت کے مطابق بچپن میں نکاح ہوسکتا ہے تاہم رخصتی بلوعت کے بعد ہوگی انہوں نے کہا کہ بچیوں کو خون بہا میں دینے کی اسلام اجازت نہیں دیتا ہے انہوں نے کہا کہ اسلام شریعت کو اس ایوان مین تبدیل نہیں کیا جاسکتا ایسے مسائل کو نہ چھیڑا جائے
انہوں نے کہا کہ اگر خلاف شریعت بل کو منظور کیا گیا تو پورے ملک میں اس سے مسائل پیدا ہوں گے انہوں نے بل کو اسلامی نظریاتی کونسل کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا۔ بل پر بات کرتے ہوئے وزیر مملکت برائے پارلیمان علی محمد خان نے کہا کہ زینب جیسے واقعات کے بعد ہمیں بچوں کا تحفظ کرنا چاہیے تاہم ہمیں اس سلسلے میں احتیاط سے کام لینا ہوگا اور ہر مسئلے کیلئے ماہرین سے رابطہ کرنا ہوگا انہوں نے کہاکہ دین کے معاملات میں احتیاط ضروری ہے انہوں نے کہا کہ اس بل کو اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجا جائے۔
سینیٹر میاں رضا ربانی نے کہا کہ یہ بل سینیٹر سحر کامران کی جانب سے گزشتہ سینیٹ میں پیش کیا گیا اور یہ بل اسلامی نظریاتی کونسل کو بھجوایا تھا تاہم وہ بل اس وقت بھی کونسل کے پاس موجود ہے اور وہاں سے کوئی رپورٹ نہیں آئی ہے انہوں نے کہا کہ یہ بل سندھ اسمبلی نے منظور کیا ہے اور وہاں پر یہ قانون بن چکا ہے اور وہاں پر کسی بھی سیاسی جماعت یا ممبر اسمبلی نے چیلنج نہیں کیا ہے اہنہوں نے کہا کہ دنیا کے مزید مسائل پیدا ہوں گے انہوں نے کہا کہ یہ بہت اہم معاملہ ہے حکومت اس بل کی مخالفت نہیں کرتی ہے اس بل کا مقصد خواتین کے ساتھ زیادتیوں کو روکنا ہے اس بل کے ابرے میں اجتہاد ضروری ہے۔ سینیٹر سسی پلیجیو نے کہا کہ اس وقت انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا بدترین شکار عورتیں اور بچیاں ہیں بدقسمتی سے پاکستان میں خواتین کے ساتھ زیادتیوں کا سلسلہ جاری ہے اور دیہاتوں میں رہنے والی بچیوں کے ساتھ اسلام کے نام پر زیادتیاں کی جارہی ہیں
انہوں نے کہا کہ اس سلسلے کو روکنا ہوگا اسلامی نظریاتی کونسل کی تمام رپورٹس عورتوں اور بچوں کے ارد گرد ہی گھومتی ہیں انہیں ملک کے عوام کو درپیش دیگر مسائل نظر نہیں آتے ہیں۔ انہوں نے کاہ کہ یہ قانون سازی بہت ضروری ہے۔ سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے بل پر بحث کرتے ہوئے کہا کہ یہ بہت حساس معاملہ ہے اگر بچے کی شادی کے حوالے سے قرآن پاک میں زکر ہے تو اس کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کاہ کہ اسلام میں چار شادیوں کی اجازت ہے تاہم اسلامی قوانین کے تحت دوسری شادی کے خواہشمند کو اپنی بیوی سے اجازت لینی ہوگی اور اجازت نہ لینے کی صورت میں شادی تو ہوگی لیکن اسے سزا بھی ہوگی انہوں نے کہا کہ ہمیں اس بل کو دیکھنا ہوگا پاکستان کے تمام قوانین بھی بچے کی عمر اٹھارہ سال تک فکس ہے یہ بل محض بچے کی عمر مقرر کرتا ہے۔ سینیٹر مشاہد اللہ نے کہا کہ اسلام نے ہمیں اجتہاد کی اجازت دی ہے تاکہ اس طرح کے حالات میں بہتر فیصلے کئے جاسکیں انہوں نے کہا کہ تیزی سے بڑھی ہوئی آبادی کے تناظر میں ہمیں صورتحال کو دیکھنا ہوگا سینیٹر مہر تاج روغانی نے کہا کہ طبی نکتہ نگاہ سے بچے کی عمر اٹھارہ سال مقرر ہے تاہم اچھی خوراک کی بنا پر بچیاں گیارہ سے تیرہ سال کی عمر تک بلوغت تک پہنچ جاتی ہیں انہوں نے کہا کہ اس بل پر بحث ہونی چاہیے۔