کراچی(آن لائن)جنوری 2019ء میں منعقدہ گذشتہ زری پالیسی کمیٹی کے اجلاس کے بعد جاری ہونے والے معاشی اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ استحکام کے لیے کیے جانے والے اقدامات کے اثرات مسلسل سامنے آرہے ہیں۔ خاص طور پر 2019ء کے پہلے دو ماہ کے دوران جاری کھاتے کے خسارے میں نمایاں کمی ریکارڈ کی گئی جس کے ہمراہ دو طرفہ تعلقات پر مبنی رقوم کی آمد نے اسٹیٹ بینک کے زرِ مبادلہ کے ذخائر پر دباؤ کم کرنے میں مدد دی۔
بیرونی محاذ پر اس پیش رفت نے مالی منڈیوں میں استحکام کو بہتر بنایا، غیریقینی کیفیت کو کم کیا اور کاروباری اعتماد میں بہتری پیدا کی جس کی عکاسی مختلف سرویز سے ہوتی ہے۔ تاہم جاری کھاتے کا خسارہ کم ہونے کے باوجود ابھی تک بلند ہے، مالیاتی یکجائی (consolidation) توقع سے کم رفتار سے واقع ہورہی ہے اور قوزی (core)مہنگائی مسلسل بڑھ رہی ہے۔جولائی تا فروری مالی سال 19ء میں اوسط عمومی مہنگائی بلحاظ صارف اشاریہ قیمت (CPI) 6.5 فیصد تک پہنچ گئی جبکہ پچھلے برس کی اسی مدت میں 3.8 فیصد تھی۔ اس دوران سال بسال مہنگائی بلحاظ صارف اشاریہ قیمت میں خاصا اضافہ ہوا جو جنوری 2019ء میں7.2 فیصد اور فروری 2019ء میں 8.2 فیصد تک جاپہنچی جو جون 2014ء سے اب تک مہنگائی میں بلند ترین سال بسال اضافہ ہے۔ عمومی مہنگائی پر دباؤکی وضاحت بجلی اور گیس کی مقررہ قیمتوں میں ردّوبدل، تلف پذیر (perishable)غذائی اشیا کی قیمتوں میں نمایاں اضافے اور شرح مبادلہ میں کمی کے مسلسل ظاہر ہوتے ہوئے اثرات سے ہوتی ہے۔ قوزی مہنگائی میں اضافے کا 13 ماہ کا رجحان جاری رہا جو فروری 2019ء میں 8.8 فیصد تک پہنچ گئی جبکہ ایک سال قبل 5.2 فیصد تھی۔ مزید یہ کہ فعال زری انتظام کی وجہ سے مجموعی طلب معتدل ہونے کے باوجود توانائی کی بلند قیمتوں اور شرح مبادلہ میں کمی کے موخر اثر کی وجہ سے امکان ہے کہ خام مال کی بڑھتی ہوئی قیمتیں مہنگائی میں اضافے کے لیے دباؤ ڈالتی رہیں گی۔
نتیجتاً پیش گوئی کے مطابق عمومی مہنگائی بلحاظ صارف اشاریہ قیمت مالی سال 19ء میں 6.5 سے 7.5 فیصد کے درمیان رہے گی۔مہنگائی کا دباؤ گھٹانے اور دیگر بڑھتے ہوئے معاشی عدم توازن کو کم کرنے کی کوششوں کے دوران ملکی معاشی سرگرمی کو استحکام کے ان اقدامات کا بوجھ برداشت کرنا پڑا جن پر اب تک عملدرآمد ہوا ہے۔ خاص طور پر جولائی تا جنوری مالی سال 19ء کے دوران بڑے پیمانے کی اشیا سازی (LSM) 2.3 فیصد کم ہوگئی جبکہ پچھلے سال کی اسی مدت میں 7.2 فیصد نمو ہوئی تھی۔
اہم فصلوں کے تازہ ترین دستیاب تخمینوں سے بھی شعبہ زراعت کی ناقص کارکردگی کی عکاسی ہوتی ہے۔ اجناس پیدا کرنے والے شعبوں میں سست رفتاری کے شعبہ خدمات کی نمو کے لیے بھی منفی مضمرات ہیں۔ اسی طرح صارفی طلب اور کیپٹل سرمایہ کاریوں میں کمی 150جس کی عکاسی ترقیاتی اخراجات میں کٹوتی اور معینہ سرمایہ کاریوں کے قرضوں کی رفتار گھٹنے سے ہوتی ہے151سے ملکی طلب میں اعتدال کی نشاندہی ہوتی ہے۔ اس پس منظر میں مالی سال 19ءمیں حقیقی جی ڈی پی نمو کے بارے میں پیش گوئی ہے کہ یہ 3.5 فیصد کے آس پاس رہے گی۔
استحکام کے اقدامات کے باعث جولائی تا فروری مالی سال 19ء میں جاری کھاتے کا خسارہ کم ہوکر 8.8 ارب ڈالر ہوگیا جبکہ گذشتہ سال کے اسی عرصے میں 11.4 ارب ڈالر خسارہ تھا، یعنی 22.7 فیصد کمی ائی۔ اس میں پچھلے برس کی یکساں مدت کے مقابلے میں 2019ء کے پہلے دو ماہ کے دوران جاری کھاتے کے خسارے کی 59.9فیصد کی واضح کمی کی رفتار بھی شامل ہے۔بیرونی توازن میں اس کمی کا بنیادی سبب اشیا اور خدمات کے تجارتی خسارے میں 29.7 فیصد کی کمی کے ہمراہ ترسیلاتِ زر میں مضبوط نمو تھی۔تجارتی خسارے میں کمی بڑی حد تک درا?مدات میں کمی کی بنا پر ا?ئی 150اگر تیل کی قیمتوں میں اضافہ نہ ہوتا تو یہ کمی مزید نمایاں ہوتی۔
ڈالر کی قدر میں برا?مدات اس مدت کے دوران یکساں رہیں تاہم حجم کے لحاظ سے نمایاں بہتری ائی ہے۔ اگرچہ جاری کھاتے کا خسارہ مالکاری کے حوالے سے ابھی تک ہمت ازما ہے تاہم اس کی کمی زرِ مبادلہ کی مارکیٹ میں کچھ استحکام کی شکل میں نمودار ہوئی ہے۔بیرونی توازن میں بہتری کے ساتھ دوطرفہ تعلقات پر مبنی سرکاری رقوم کی ا?مد میں اضافے کی بنا پر اسٹیٹ بینک کے زرِ مبادلہ کے ذخائر میں بتدریج بہتری ائی ہے اور 25 مارچ 2019ء کو بڑھ کر 10.7 ارب ڈالر ہوگئے ہیں۔ اگرچہ ذخائر ابھی تک معیاری سطح کفایت (تین مہینے کی درامدات کے مساوی) سے کم ہیں تاہم بیرونی محاذ پر حالیہ بہتری نے کاروباری اعتماد میں اضافہ کیا ہے۔ اس کی عکاسی حالیہ ائی بی اے اسٹیٹ بینک سرویز سے ہوتی ہے
جس میں صنعت اور خدمات کے شعبوں کی متعدد فرمیں شامل ہیں۔ بہرکیف ملک کے بیرونی کھاتوں میں وسط تا طویل مدت استحکام حاصل کرنے کے لیے نجی رقوم کی امد کے حصے میں پائیدار بنیادوں پر اضافے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح، جیسا کہ پچھلے بیانات میں واضح کیا گیا، تجارتی خسارے میں کمی لانے کے لیے برامدی شعبوں میں پیداواریت اور مسابقت کو بہتر بنانے کی خاطر مربوط ساختی اصلاحات درکار ہیں۔ مالی سال 19ء کی پہلی ششماہی کا مالیاتی خسارہ پچھلے سال کی اسی مدت کے 2.3 فیصد کے مقابلے میں جی ڈی پی کا 2.7 فیصدیعنی زیادہ تھا۔ محاصل کی وصولی میں کمی اور امن و امان سے متعلق بڑھتے ہوئے اخراجات کے بوجھ کی وجہ سے بہت امکان ہے کہ مالی سال 19ء کا مالیاتی خسارہ ہدف سے تجاوز کرجائے گا۔
اب تک مالیاتی خسارے کا خاصا حصہ اسٹیٹ بینک سے قرض لے کر پورا کیا گیاہے۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو نہ صرف زری پالیسی کی ترسیل میں پیچیدگیاں پیدا ہوں گی بلکہ اس کا اثر بھی کم ہوجائے گا اور یکجائی کے لیے کی جانیوالی کوششیں طویل تر ہوجائیں گی۔مطلق لحاظ سے یکم جولائی سے 15 مارچ مالی سال 19ء کے دوران حکومت نے اسٹیٹ بینک سے 3.3 ٹریلین روپے قرض لیا اور جدولی بینکوں کے 2.2 ٹریلین روپے کے قرضے (نقد بنیاد پر)واپس کیے۔ اس سے بینکوں کو مارکیٹ کی شرح سود پر دباؤ ڈالے بغیر نجی شعبے کے قرضے کی طلب پورا کرنے میں سہولت ملی اور یہ قرضے 9.2 فیصد بڑھ گئے۔قرضے کی طلب میں زیادہ تر اضافہ خام مال کی بلند قیمتوں کی بنا پر جاری سرمائے اور بجلی اور تعمیرات سے متعلق صنعتوں میں
استعداد میں توسیع کے لیے تھا۔ مجموعی طور پر رسدِ زر (ایم ٹو) یکم جولائی سے 15 مارچ مالی سال 19ء کے دوران 3.6 فیصد بڑھ گئی جبکہ گذشتہ سال کی اسی مدت کے دوران اس میں 2.4 فیصد اضافہ ہوا تھا۔ ایم ٹو میں اس نمو کا واحد محرک خالص ملکی اثاثوں میں اضافہ تھا کیونکہ خالص بیرونی اثاثے کم ہوئے۔مذکورہ بالا حالات اور ابھرتی ہوئی معاشی صورتِ حال کے پیش نظر زری پالیسی کمیٹی نے نوٹ کیا کہ پائیدار نمو اور مجموعی معاشی استحکام کے لیے مزید پالیسی اقدامات کی ضرورت ہے کیونکہ (i) مہنگائی کے مضمر دباؤ میں اضافہ جاری ہے؛ (ii) مالیاتی خسارہ بلند ہے، اور (iii) بہتری کے باوجود جاری کھاتے کا خسارہ بلند ہے۔اس پس منظر میں اور تفصیلی سوچ بچار کے بعد زری پالیسی کمیٹی نے یکم اپریل 2019ء سے پالیسی ریٹ کو 50 بی پی ایس بڑھا کر 10.75 فیصد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔