لاہور ( این این آئی) لاہور ہائیکورٹ کے فل بینچ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی نئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی)کے خلاف دائر درخواستیں قابل سماعت قرار دیتے ہوئے ٹیم کو کام کرنے سے روک دیا، عدالت نے پنجاب حکومت کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا۔ہائیکورٹ کے مسٹر جسٹس قاسم خان کی سربراہی جسٹس ملک شہزاد احمد خان اور جسٹس مس عالیہ نیلم پر مشتمل تین رکنی فل بنچ نے انسپکٹر رضوان قادر ہاشمی، کانسٹیبل خرم رفیق کی درخواستوں پر محفوظ فیصلہ سنایا ۔
درخواست گزاروں نے موقف اختیار کیا کہ ایک جے آئی ٹی کے بعد اسی معاملے پر دوسری جے آئی ٹی نہیں بن سکتی، معزز عدالت سے استدعا ہے کہ پنجاب حکومت کا نئی جے آئی بنانے کا اقدام کالعدم قرار دیا جائے ۔ سرکاری وکیل نے کہا کہ درخواستیں ناقابل سماعت ہیں اور انہیں مسترد کیا جائے ۔ ہائیکورٹ کے فل بنچ نے دلائل مکمل ہونے پر درخواست کے قابل سماعت ہونے سے متعلق فیصلہ محفوظ کر لیاجو بعد ازاں سناتے ہوئے نئی جے آئی ٹی کیخلاف درخواستیں قابل سماعت قرار دے دیں ۔ ہائیکورٹ کے فل بنچ نے نئی جے آئی ٹی بنانے کا نوٹیفکیشن معطل کرتے ہوئے اسے کام کرنے سے روک دیا اور پنجاب حکومت کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا۔فیصلہ سنانے کے وقت ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سمیت تمام لاء افسران کمرہ عدالت میں موجود تھے۔فیصلے سے قبل بینچ اور ایڈووکیٹ جنرل میں تلخی کا ماحول دیکھنے میں آیا۔ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ کی تاریخ میں پہلی بار حکومت کو سنے بغیر فیصلہ سنایا گیا۔اس موقع پر جسٹس ملک شہزاد احمد خان نے کہا کہ آپ ہمیں دباؤ میں لانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ہم دبا ؤ میں نہیں آئیں گے۔بینچ کے سربراہ جسٹس محمد قاسم خان نے ایڈووکیٹ جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وقت پر کیس کی سماعت کی، لاء افسر کمرہ عدالت میں موجود تھا جبکہ آپ کے پاس حکم واپس لینے کے لیے درخواست دینے کا فورم موجود ہے۔واضح رہے کہ گزشتہ سال 5 دسمبر کو پنجاب حکومت نے ماڈل ٹاؤن کیس میں ازسرِنو تحقیقات کے لیے نئی جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ کیا تھا،
جس کے بعد سپریم کورٹ میں اس سے متعلق درخواست نمٹا دی گئی تھی۔پنجاب حکومت نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس میں آئی جی موٹروے اے ڈی خواجہ کی سربراہی میں نئی جے آئی ٹی تشکیل دی تھی۔کمیٹی کے دیگر اراکین میں آئی ایس آئی کے نمائندے لیفٹیننٹ کرنل محمد عتیق الزمان، ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی)کے لیفٹیننٹ کرنل عرفان مرزا، ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی)انٹیلی جنس بیورو (آئی بی)محمد احمد کمال اور ڈی آئی جی ہیڈ کوارٹرز پولیس گلگت بلتستان قمر رضا شامل ہیں۔مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف سے تحقیقات کا فیصلہ کیا تھا اور احتساب عدالت کی اجازت کے بعد دو روز قبل لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں ان کا بیان قلمبند کیا تھا۔ماڈل ٹاؤن واقعے پر بنائی گئی جے آئی ٹی نے چند روز قبل سابق وزیرِ اعلی پنجاب شہباز شریف کا بھی بیان ریکارڈ کیا تھا۔