اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف کی درخواست ضمانت پر نیب سمیت فریقین کو نوٹسز جاری کر تے ہوئے ایک ہفتے میں جواب طلب کرلیا ہے ۔ منگل کو سابق وزیراعظم محمد نوازشریف ضمانت کی اپیل پر سماعت چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی ،جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس یحیٰی آفریدی بھی بنچ کا حصہ تھے ۔ کمرہ عدالت میں مسلم لیگ (ن)کے رہنما حمزہ شہباز ،
راجہ ظفر الحق ، اقبال ظفر جھگڑا ، رانا تنویر حسین ، امیر مقام ، طاہرہ اور نگزیب ، مریم اور نگزیب ، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ، سینیٹر پرویز رشید ، رکن اسمبلی ایاز صادق ، سابق وزیر خواجہ محمد آصف اورسابق صوبائی وزیر رانا ثناء اللہ بھی موجود تھے ۔سماعت کے دوران دلائل دیتے ہوئے سابق وزیر اعظم محمد نوازشریف کے وکیل خواجہ محمد حارث نے کہاکہ حکومت پنجاب نے 4 رکنی خصوصی میڈیکل بورڈ تشکیل دیا۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یہ بورڈ کب بنا ؟ ۔خواجہ حارث نے بتایاکہ 29 جنوری کو بورڈ نے رپورٹ پیش کی ،دوسری رپورٹ سروسز ہسپتال نے 5 فروری کوجمع کروائی۔ خواجہ حارث نے بتایاکہ 15 فروری کو علامہ اقبال میڈیکل کالج اور جناح ہسپتال کے ڈاکٹروں پر مشتمل بورڈ بنا۔خواجہ حارث نے کہاکہ 18 فروری کو بورڈ مے رپورٹ دی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ہائیکورٹ نے فیصلے میں لکھا ہے کہ کچھ درخواستیں واپس لے لی گئیں تھیں۔چیف جسٹس نے کہاکہ نواز شریف کی میڈیکل ہسٹری بتاتی ہے کہ وہ لندن میں زیر علاج رہے ہیں۔جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ میڈیکل کمیٹی نے بتایا کہ ان کو نواز شریف کے علاج کا طریقہ کار نہیں بتایا گیا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اگر وہ ان بیماریوں میں مبتلا ہیں اور صحت مزید خراب نہیں ہوئی تو صورتحال مختلف ہے۔چیف جسٹس نے کہاکہ ہم میڈیکل رپورٹس کاجائزہ لے لیتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہاکہ یہ بھی دیکھ لیتے ہیں کہ ہائیکورٹ نے ان رپورٹس کا جائزہ لیا یا نہیں۔خواجہ حارث نے کہا کہ
تیسری رپورٹ میں خون کی روانی میں رکاوٹ آئی ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ مگر دل کی کوئی شریان بند تو نہیں ہے،اہم شخصیت کا اعلاج بھی اہم ہوتا ہے،ڈاکٹر ایسے مریضوں کا ایک ٹیسٹ کی جگہ دس ٹیسٹ کرتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ اس رپورٹ میں ڈاکٹروں نے مزید تجربہ کار ڈاکٹروں پر مشتمل بورڈ بنانے کی تجویز دی۔چیف جسٹس نے کہا کہ اے ایف آئی سی، آر آئی سی و دیگر سے علاج کرنے کی تجویز بھی دی گئی۔چیف جسٹس نے کہاکہ سب کو پتا ہے کہ نواز شریف کاباہر علاج ہوتا رہا ہے،
نواز شریف نے اسی صحت کے ساتھ جنرل الیکشن کمپین میں حصہ لیا،اسی صحت کے ساتھ سارے ٹرائل سے بھی گزرے،نواز شریف اسی صحت کے ساتھ جلسے جلوس اور ریلیاں کرتے رہے ہیں۔خواجہ حارث نے کہاکہ لیب رپورٹس نواز شریف کی صحت کے حوالے سے درست تصویر کشی کر سکتی ہے۔خواجہ حارث نے کہاکہ عدالت کو لیب رپورٹ دکھانا چاہتا ہوں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ لیب ٹیکنیشن نے بھی رپورٹ میں ہائی پروفائل لکھا ہے،اسی پروٹوکولسٹ کی بات کر رہا ہوں۔
خواجہ حارث نے کہا کہ 30 جنوری 2019 کو میڈیکل بورڈ نے جیل میں نواز شریف کا معائنہ کیا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ میڈیکل بورڈ نے بھی صرف مزید معائنے کی تجویز دی ہے،اس رپورٹ کے مطابق نواز شریف کا دل بالکل ٹھیک ہے۔ خواجہ حارث نے کہاکہ جو شریان دماغ کو خون پہنچاتی ہے اس میں 43 فیصد خرابی ہے۔خواجہ حارث نے کہاکہ 2016 میں لندن کے ڈاکٹر کی رپورٹ کے مطابق پہلے یہ شریان 17 فیصد خراب تھی۔ خواجہ حارث نے کہا کہ دماغ کو خون پہنچانے والی
شریان 50 فیصد خراب ہو جائے تو کسی بھی ایمرجنسی کی صورتحال پیدا کو سکتی ہے۔خواجہ حارث نے کہاکہ ابھی نواز شریف کو انجائینہ کی بیماری بھی لاحق ہے،7 فروری 2019 کی رپورٹ کے مطابق 2011 میں نوا شریف کا دل بائیں طرف سے خراب ہوا۔ خواجہ حارث نے کہاکہ 2011 میں ان کی اوپن ہارٹ سرجری ہوئی۔چیف جسٹس نے کہا کہ سینے میں درد کی شکایت ہوئی جو ایک گولی دینے سے ٹھیک ہو گئی۔ خواجہ حارث نے کہا کہ ہر رپورٹ میں کیا گیا ہے کہ ان کو ہسپتال میں جانا چاہیے۔
خواجہ حارث نے کہاکہ تمام رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ مریض کی انجیوگرافی ہونی چاہیے۔سماعت کے دور ان جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہاکہ کیا آپ کو اپنی مرضی کے ڈاکٹر سے علاج کیلئے روکا گیا، خواجہ حارث نے کہاکہ میرے موکل کا علاج یہاں ہوا ہی نہیں۔خواجہ حارث نے کہاکہ نواز شریف یہاں کسی ڈاکٹر کو جانتے ہی نہیں، اپنی زندگی کسی ڈاکٹر کے ہاتھ نہیں دے سکتے۔خواجہ حارث نے کہاکہ نواز شریف کو آزاد شہری کے طور پر اپنا علاج کروانے کا موقع دیا جائے۔خواجہ حارث نے کہاکہ
جیل میں رہ کر ذہنی دباو کے باعث نواز شریف کی طبیعت مزید بگڑ رہی ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ آپکے دلائل سے یہ بات تو واضح ہے کہ نواز شریف کا علاج جیل میں ممکن نہیں۔چیف جسٹس نے کہاکہ آپ کے کہنے کا مطلب ہے نواز شریف کا علاج صرف بیرون ملک ہوسکتا ہے۔چیف جسٹس نے کہاکہ آپ کے مطابق نواز شریف بیرون ملک اپنے ڈاکٹرز سے علاج کروانے کیلئے جانا چاہتے ہیں۔خواجہ حارث نے کہاکہ ضروری نہیں کہ نواز شریف علاج کیلئے باہر بھی جائیں۔خواجہ حارث نے کہاکہ
نواز شریف بحیثیت آزاد شہری یہاں پر بھی ڈاکٹرز سے رجوع کرنا چاہتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ کیا نوازشریف کا نام ای سی ایل پر ہے ۔خواجہ حارث نے جواب دیا کہ جی نواز شریف کا نام ای سی ایل پر ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ کیا ایسی کوئی عدالتی نظیر ہے کہ ملزم کو بیرون ملک علاج کیلئے بھیجا گیا ہو۔خواجہ حارث نے کہاکہ جی بالکل ایسی نظیر موجود ہے جسکا حوالہ بعد میں دوں گا۔چیف جسٹس نے کہاکہ ہمارا لوگوں کو بیرون ملک بھیجنے کا تجربہ کچھ اچھا نہیں،ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کئی لوگ بیرون ملک جاکر واپس نہیں آتے۔ خواجہ حارث نے کہاکہ نواز شریف اس سے قبل بھی بیرون ملک سے پاکستان گرفتاری دینے آچکے ہیں۔خواجہ حارث نے کہاکہ نواز شریف اپنی بیوی کو بستر مرگ پر چھوڑ کر وطن واپس آئے تھے،نواز شریف کا بیرون ملک جاکر واپس نہ آنے کا کوئی ارادہ نہیں۔خواجہ حارث نے کہا کہ ایک اور بات عدالت کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں،اگر ضمانت ملنے کے بعد نواز شریف کی طبیعت بہتر ہو جائے تو عدالت ضمانت منسوخ بھی کر سکتی ہے۔ نجی ٹی وی کے مطابق چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بے شک نواز شریف سزا ہونے کے بعد واپس آئے، نواز شریف ضمانت کے باوجود بیرون ملک نہیں جا سکتے، جن کا ٹرائل ہورہا ہے وہ بھی واپس نہیں آئے۔دلائل سننے کے بعد سپریم کورٹ نے نواز شریف درخواست ضمانت پر نیب سمیت فریقین کو نوٹس جاری کر تے ہوئے کیس کی مزید سماعت 26مارچ تک ملتوی کر دی ۔چیف جسٹس نے کہاکہ کیس کی سماعت میں التواء نہیں دیں گے۔