اسلام آباد (این این آئی)قومی اسمبلی میں وزیر دفاع پرویز خٹک نے یقین دہانی کرائی ہے کہ اپوزیشن تجاویز دے ہم اس پر عمل کر نے کیلئے تیار ہیں ، لوگ ہم پر ہنس رہے ہیں ،پچھلے پانچ ماہ سے کوئی کام نہیں ہوا ، تنقید سیاسی عمل ہے ،تنقید برائے تنقید نہیں ہونی چاہیے ۔جمعرات کو قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے سابق وزیر سعد رفیق نے کہا کہ آصف زرداری کو گھسیٹنے کا بیان نہیں دینا چاہئے تھا ۔
انہوں نے کہاکہ ہم نہیں چاہتے کہ جس طرح نواز شریف کو نکالا گیا عمران خان کو بھی اس طرح نکالا جائے ۔ انہوں نے کہاکہ جو پہلے مشرف اور بعد میں پیپلز پارٹی کے ترجمان تھے وہ اب آپ کے ترجمان ہیں ۔سعد رفیق نے کہا کہ جیل میں نماز، کھانا سب کچھ وقت پر کھاتے ہیں ان عناصر کا شکر گزار ہوں جنہوں نے بھجوایا۔انہوکں نے کہاکہ میں اپنے لئے پریشان نہیں ہوں،نیب کو کہاہے کہ ریفرنس بناؤ تاکہ عدالت میں ثابت ہوسکے کیا درست اور کیا غلط تھا ۔ سعد رفیق نے کہاکہ اپوزیشن پہلی بار متحد نہیں ہوئی ہے، پہلے بھی متحد ہوتی رہی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ انشااللہ پی ٹی آئی بھی جلد وہاں آئے گی جہاں پیپلز پارٹی اور ن لیگ کھڑی ہے ۔سعد رفیق نے کہا کہ اپوزیشن کے اتحاد سے ڈریں نہیں یہ آپ کے لئے نیک فعال ہے ۔ انہوکں نے کہاکہ ہم آپ کے مینڈیٹ کو نہیں مانتے مگر آپ کی حکومت کو نہیں گرائیں گے انہوں نے کہاکہ کیونکہ نہیں چاہتے کہ نظام متاثر ہو، ہر دوچار ماہ بعد آپ کو باور کراتے رہیں گے ۔ سعد رفیق نے کہاکہ ہم جمہوری، قانونی اور آئینی حق استعمال کرتے ہوئے آپ کو آئینہ دکھاتے رہیں گے سعد رفیق نے کہا کہ پارلیمنٹ ابھی تک خود مختار نہیں ہوئی، جس کی وجہ گالم گلوچ، الزام تراشی ہے ۔سعد رفیق نے کہاکہ گالم گلوچ ختم نہیں کرسکتے تو اسے کم ضرور کرلیں ۔ سعد رفیق نے کہاکہ شیخ رشید اور چوہدری برادران کے خلاف جو کچھ پی ٹی آئی نے الفاظ استعمال کیے وہ بھی ریکارڈ کا حصہ ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ جو آپ کے ٹکٹ پر لڑ کر آئے وہ ہمیں آپس میں لڑانے کی کوشش کررہے ہیں ۔
انہوں نے کہاکہ آپ شاہ محمود، پرویز خٹک کی بات ہی سن لیں۔ سعد رفیق نے کہاکہ ہم نہیں چاہتے کہ عمران خان کو نواز شریف اور یوسف گیلانی کی طرح نکالا جائے ۔ انہوں نے کہاکہ وزیراعظم سے شدید ناراض ہوں لیکن مشورہ اچھا دونگا ۔ انہوں نے کہاکہ آپ کی حکومت کو پانچ ماہ ہوچکے ہیں اب کنٹینرز سے اتر آئیں۔ اسمبلی کے اجلاس کے دور ان اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر دفاع پرویز خٹک نے کہاکہ یہ ایون تبھی چلے گا کہ ہم ایک دوسرے کو ساتھ لیکر چلیں ۔
انہوں نے کہاکہ تجاویز دیں ہم اس پر عمل کرنے کے لئے تیار ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ اس وقت جو کچھ ہورہا ہے اس پر سارے ملک میں لوگ ہم پر ہنس رہے ہیں ۔انہوں نے کہاکہ پچھلے پانچ ماہ سے کوئی کام نہیں ہوا ۔انہوں نے کہاکہ تنقید سیاسی عمل ہے لیکن وہ تنقید برائے تنقید نہیں ہونی چاہئے۔سید نوید قمر نے کہاکہ سندھ کو این ایف سی میں سے ملنے والا حصہ مانگنے کے باوجود نہیں دیا جارہا ،تین فیصد فاٹا کو حصہ تب ہی ملے گا جب این ایف سی ایوارڈ طے کرے گا ۔
انہوں نے کہاکہ جب تک طے نہیں کرتا اس وقت تک پرانے حصے ہی ملیں گے ۔ وزیر مملکت حماد اظہر نے کہا کہ سندھ کو نوے ارب دینے میں کوئی بدنیتی نہیں ہے ،بیٹھ کر مسئلہ حل کرلیں گے۔ سید خورشید شاہ نے کہاکہ قائدایوان ایک ٹوئٹ پر پارلیمنٹ چلانا چاہتے ہیں ،وہ ملک بھی ایسے ہی چلانا چاہتا ہے ،پانچ ماہ میں وزیر اعظم کتنی بار ایوان میں آئے ۔ انہوں نے کہاکہ نکال لیں ہمارے دونوں کے ادوار میں پانچ ماہ میں کتنی قانون سازی ہوئی تھی ۔ سید خورشید شاہ نے کہاکہ
عمران خان ہماری حکومتوں میں تو پارلیمان کو جعلی پارلیمنٹ قرار دیتے تھے نہیں آتے تھے ۔ انہوں نے کہاکہ کیا اب بھی وہ پارلیمان کو جعلی سمجھتے ہیں کہ نہیں آتے۔پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہاکہ جب سے حکومت آئی کوشش کی ہے کہ ایسی بات نہ کروں جو اخلاق سے گری ہوئی ہو،اپوزیشن بینچز پر بیٹھ کر کبھی قائد ایوان کی توہین نہیں کی ۔انہوں نے کہاکہ نوازشریف جب وزیراعظم بنے تو میں نے نوازشریف کی نشست پر جاکر ان سے مبارک باد دی ۔انہوں نے کہاکہ نوازشریف اپنی نشست پر بیٹھ کر ہاتھ ملایا ،انہوں نے کہاکہ ہم کٹی پتنگ نہیں نہ ہی پانی میں بہہ کر آئے ہیں۔انہوں نے کہاکہ ایک جدوجہد کے بعد اس منصب پر پہنچے ہیں۔ خورشید شاہ نے کہا کہ آپ کو کس نے روکا کہ آپ قانون سازی نہ کریں،
ہماری اور ن لیگ کی پانچ مہینے کی کارکردگی نکال کر جائزہ لے لیں کتنی قانون سازی اس دور میں ہوئی ۔انہوں نے کہاکہ اس پارلیمنٹ کو ماضی میں وہ جعلی کہتے رہے لیکن کیا آج بھی وہ حقیقی طور پر جعلی سمجھتے ہیں، اس وجہ سے ٹوئٹ پہ جاتے ہیں ۔انہوں نے کہاکہ بتائیں تو سہی پچاس لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریاں کہاں ہیں ؟انہوں نے کہا کہ قرضے نہ لینے کے دعویدار کے قول و فعل میں تضاد لیکن عوام مہنگائی کی وجہ سے خود کشیاں کررہے ہیں ۔انہوں نے کہاکہ پانچ ماہ میں حکومت کوئی ایک کارنامہ تو بتائے ۔انہوں نے کہاکہ متفقہ مطالبہ کرتے ہیں لیڈر کو اس ایوان میں لائیں ۔ خورشید شاہ نے کہاکہ وزیراعظم اس ایوان کو ماننے کو تیار نہیں ہیں ،وہ اپنے آفس کو تو انجوائے کرتے ہیں مگر اس ایوان میں نہیں آتے۔ وزیر پارلیمانی نے کہاکہ بلاول بھٹو کو دیکھ کر اس بات کا دکھ ضرور ہوتا ہے کیونکہ انہوں نے ماں کھوئی ہے ؟ایسا ہی دکھ مراد سعید کا بھی ہے کیونکہ سوات آپریشن سے متاثر ان کی والدہ ہوئیں۔