ہفتہ‬‮ ، 10 مئی‬‮‬‮ 2025 

’’تم جانتے نہیں میں کون ہوں‘‘ معروف صحافی دکاندار کو بلیک میل کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا اپنے بچوں کیلئے کیسے لیپ ٹاپ اور چیزیں زبردستی تحفے میں لیتاتھا وٹس ایپ پر ہوئی گفتگو سامنے آگئی، انصار عباسی نے بھانڈا پھوڑ دیا

datetime 14  جنوری‬‮  2019
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)دوسرے دن دکاندار کو انہی رپورٹر صاحب کا وٹس ایپ (Whatsapp) پیغام آیا کہ لیپ ٹاپ کے لیے اُن کے بیٹے کو ایک Accessory چاہئے۔ اُنہیں بتایا گیا کہ مطلوبہ چیز دکان میں موجود ہے، جس کی تصویر اور قیمت رپورٹر صاحب کو بھجوا دی گئی۔ اس پر دکاندار کو انگریزی میں رپورٹر صاحب نے یہ لکھا “I will visit you tomorrow to

collect your gift for nephew” (میں کل آپ کے بھتیجے کے لیے آپ کا تحفہ لینے آئوں گا)۔ دکاندار سمجھدار تھا، اس نے وٹس ایپ پیغام سنبھال کر رکھے ہوئے تھے جو مجھے بھی دکھائے۔ دوسرے دن جب رپورٹر صاحب آئے تو دکاندار نے مطلوبہ چیز دیتے ہوئے کہا کہ مہربانی کر کے دس ہزار پرانے اور ساڑھے سات ہزار نئی خریداری کے ادا کر دیں۔ اس پر رپورٹر صاحب نے کہا کہ دس ہزار روپے تو اُنہوں نے دکاندار کے اکائونٹ میں پہلے ہی ٹرانسفر کر دیئے ہیں۔ دکاندار نے اُنہیں بتایا کہ کوئی پیسہ ٹرانسفر نہیں کیا گیا۔ دکاندار کے مطابق اس پر رپورٹر صاحب کافی ناراض ہوئے اور میری کلاس لیتے ہوئے کہا ’’ تم مجھے جانتے نہیں، میں کون ہوں، اگر میں چاہوں تو دس منٹ میں تمہاری دکان بند کروا سکتا ہوں‘‘۔ دکاندار بیچارا ڈرا تو ضرور لیکن وہ اپنی جیب سے اتنی رقم نہیں بھر سکتا تھا۔ اُس نے رقم کی ادائیگی پر پھر زور دیا اور یہ بھی کہا کہ اُن کے گاہکوں میں اُسی میڈیا گروپ (جس سے رپورٹر صاحب کا تعلق ہے) کے کچھ اور صحافی بھی شامل ہیں۔ دکاندار نے دو ایک نام بھی لیے، جس پر رپورٹر صاحب وہاں سے Accessoryلے کر چلے گئے اور دس ہزار روپے دکاندار کو ٹرانسفر بھی کر دئیے مگر Accessory کے پیسے نہیں دئیے کیونکہ دکاندار کے مطابق‘ وہ رپورٹر صاحب کے بیٹے کے لیے زبردستی کا تحفہ تھا، جس کے پیسے اُس غریب نے

اپنی جیب سے بھرے۔دکاندار نے مجھے یہ بھی بتایا کہ ان ملاقاتوں کے دوران رپورٹر صاحب نے اسے اپنے امریکہ کے دورے کی کہانی بھی سنائی اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا کہ اُن رپورٹر صاحب کے پاس کون سی گاڑی ہے۔ یہ قصہ سناتے ہوئے دکاندار نے کہا کہ اُس کا دل چاہا کہ متعلقہ چینل کے مالکان کو شکایت کرے لیکن پھر اس نے سوچا نجانے اس کا کوئی فائدہ بھی ہو گا یا نہیں۔ پھر خود ہی بولا کہ صحافت میں بلیک میلرز بھی تو ہوتے ہیں۔ میں نے اُس بیچارے کو بتایا کہ وہ شکایت کرے گا بھی تو رپورٹر صاحب کا کچھ نہیں بگڑنا۔ میڈیا کے ادارے، مالکان، صحافتی تنظیموں نے اگر اپنی خود احتسابی کا کوئی سسٹم بنایا ہوتا تو ایسے واقعات کیوں ہوتے اور صحافیوں کو بلیک میلنگ اور کرپشن سے کیونکر جوڑا جاتا؟

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



محترم چور صاحب عیش کرو


آج سے دو ماہ قبل تین مارچ کوہمارے سکول میں چوری…

شاید شرم آ جائے

ڈاکٹرکارو شیما (Kaoru Shima) کا تعلق ہیرو شیما سے تھا‘…

22 اپریل 2025ء

پہلگام مقبوضہ کشمیر کے ضلع اننت ناگ کا چھوٹا…

27فروری 2019ء

یہ 14 فروری 2019ء کی بات ہے‘ مقبوضہ کشمیر کے ضلع…

قوم کو وژن چاہیے

بادشاہ کے پاس صرف تین اثاثے بچے تھے‘ چار حصوں…

پانی‘ پانی اور پانی

انگریز نے 1849ء میں پنجاب فتح کیا‘پنجاب اس وقت…

Rich Dad — Poor Dad

وہ پانچ بہن بھائی تھے‘ تین بھائی اور دو بہنیں‘…

ڈیتھ بیڈ

ٹام کی زندگی شان دار تھی‘ اللہ تعالیٰ نے اس کی…

اگر آپ بچیں گے تو

جیک برگ مین امریکی ریاست مشی گن سے تعلق رکھتے…

81فیصد

یہ دو تین سال پہلے کی بات ہے‘ میرے موبائل فون…

معافی اور توبہ

’’ اچھا تم بتائو اللہ تعالیٰ نے انسان کو سب سے…