اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)معروف صحافی ،تجزیہ کار اور کالم نگار حامد میر اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ حکومت خود کسی نہ کسی بحران میں پھنسی رہتی ہے اور اگر ایک بحران سے نکل بھی آئے تو کوئی نیا بحران پیدا کرنے میں ذرا دیر نہیں لگاتی۔ تین دن پہلے وزیر خزانہ اسد عمر نے صحافیوں کے ایک گروپ کے ساتھ آف دی ریکارڈ گفتگو کی اور ملکی معیشت کے بارے میں کچھ
اعداد و شمار ہمیں بتائے۔ جب انہوں نے کہا کہ وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق پچھلے چند ماہ کے دوران عام آدمی کیلئے مہنگائی میں کمی اور امیر لوگوں کیلئے مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے تو ہم سب کے چہروں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ ہمیں اسی قسم کے اعداد و شمار پچھلے وزیرخزانہ اسحاق ڈار اور مفتاح اسماعیل بھی دیا کرتے تھے۔ اسد عمر نے امید دلائی کے بہت جلد پاکستان کی معیشت دبائو سے نکل آئے گی۔ یہ اچھی بات سن کر ہم نے پوچھا کہ حکومت نے میڈیا کے مختلف اداروں کے اربوں روپے کے واجبات ادا کرنے ہیں، کیا یہ واجبات ادا کرنے کا بھی کوئی امکان ہے تاکہ مختلف اداروں سے کارکنوں کی جبری برطرفیوں کا سلسلہ بند ہو تو وزیر خزانہ نے وہاں موجود سیکرٹری اطلاعات کی طرف دیکھا اور کہا کہ یہ ہمیں لکھ کر دیدیں ہم واجبات ادا کر دیں گے۔ سیکرٹری صاحب نے بڑے نستعلیق انداز میں کہا کہ ہمیں واجبات کی جو رقم بتائی گئی ہے اس کے ایک حصے پر ہمارے تحفظات ہیں، جب یہ تحفظات دور ہو جائیں گے تو ہم لکھ کر دیدیں گے لیکن کچھ رقم جلد ادا کر دی جائے گی۔ ہم اس آف دی ریکارڈ ملاقات سے اٹھ کر دفتر آئے تو پی ٹی وی پر وزیر خزانہ سے منسوب خبر چل رہی تھی کہ معیشت جلد دبائو سے نکل آئے گی لیکن اس خبر میں گفتگو کا وہ حصہ شامل نہ تھا جو میڈیا سے متعلق تھا۔ وزیر خزانہ کی آف دی ریکارڈ بریفنگ کا بھانڈا کسی اور نے نہیں پی ٹی وی نے پھوڑ دیا۔