پشاور(این این آئی)عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر اسفندیار ولی خان نے کہا ہے کہ افغانستان امن مذاکرات میں افغان حکومت کو شامل نہ کرنا ایک اور جنگ کو دعوت دینے کے مترادف ہے، پاکستان کی پارلیمنٹ اس حوالے سے پہلے ہی قرارداد منظور کرچکی ہے کہ امن مذاکرات افغان حکومت کی سربراہی میں ہوں اور وہ اسے اپنائے ،بصورت دیگر خطے میں مزید غلط فہمیاں پیدا ہونے کا خدشہ ہے ،
ان خیالات کا اظہار انہوں نے ولی باغ چارسدہ میں افغانستان کے اعلیٰ سطحی وفد سے بات چیت کرتے ہوئے کیا جس نے سابق وزیر داخلہ اور افغان امن کونسل کے چیئرمین محمد عمر داؤدزئی کی قیادت میں ان سے ملاقات کی ، وفد میں نئے تعینات ہونے والے سفیر عاطف مشال اور دیگر اہم رہنما بھی شامل تھے ، وفد کے شرکاء نے افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے کی جانے والی کوششوں پر عوامی نیشنل پارٹی کے قائد کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اے این پی نے ہمیشہ امن کی خاطر بیش بہا اور تاریخی قربانیاں دی ہیں ، اسفندیار ولی خان نے اس موقع پر طالبان ،پاکستان اور امریکی اسٹیبلشمنٹ کومخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مذاکرات تب کامیاب ہوں گے جب سارے فریقین کو افغان حکومت کی سربراہی میں اس عمل کا حصہ بنایا جائے۔ آج طالبان کے ساتھ اگر یک طرفہ طور پر سمجھوتہ کیا گیا تو داعش اپنی کارروائیاں کرتا رہے گا اور پھر ایک سال بعد اُن کے ساتھ بھی مذاکرات کرنا ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ چین اور روس کو افغان امن عمل میں ضامن کا کردار ادا کرنا ہو گا ورنہ روس میں کریمیا اور چین میں سنکیانگ کے راستوں سے ہوتے ہوئے طالبان اور داعش اس سارے خطے میں پھیل جائیں گے اور دہشت گردی کو فروغ دیں گے ، انہوں نے مزید کہا کہ اگر افغان امن عمل کامیاب نہیں ہوتا تو انہیں ڈر ہے کہ یہ سارا خطہ بھی شام کی طرح جنگ کا ایندھن بن جائے گا،اسفندیار ولی خان نے وفد کو یقین دہانی کرائی کہ افغانستان میں قیام امن کیلئے اپنی کاوشیں ہمیشہ کی طرح جاری رکھیں گے اور جب بھی انہیں اس حوالے سے اے این پی کی ضرورت محسوس ہو ہم اپنا کردار نبھائیں گے۔وفد نے اسفندیار ولی خان کو افغان صدر اشرف غنی کی جانب سے نیک خواہشات کا پیغام بھی پہنچایا۔