اسلام آباد(این این آئی)انسپکٹر جنرل (آئی جی) اسلام آباد محمد عامر ذوالفقار کی جانب سے سرکاری رہائش پر غیر قانونی قبضے سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے آئی جی اسلام آباد کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ آپ لال مسجد آپریشن کروانے کیلئے آئے تھے اور یہاں پر فلیٹس پر قبضہ کرلیا۔ منگل کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے آئی جی اسلام آباد کے سرکاری رہائش پر غیر قانونی قبضے سے متعلق کیس کی سماعت کی۔
سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے آئی جی اسلام آباد کو روسٹرم پر بلا لیا اور انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ لال مسجد آپریشن کرنے کے لیے یہاں آئے تھے لیکن فلیٹس پر قبضہ کر لیا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر قانون پر عمل کرنے والوں نے ہی خلاف ورزی کرنی ہے تو کیسے کام چلے گا؟۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ جس جگہ پر آئی جی اسلام آباد کی رہائش گاہ ہے وہاں کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے ممبر کا گھر تھا جس پر آئی جی اسلام آباد نے جواب دیا کہ میرے علم میں یہ بات ابھی آئی ہے۔سی ڈی اے کے وکیل نے عدالت میں اپنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد میں 200 کواٹرز پولیس نے تاحال خالی نہیں کیے۔سیکرٹری ہاؤسنگ نے عدالت میں کہا کہ کراچی میں سرکاری گھر خالی کرانے کے لیے حکومت نے اراکین اسمبلی پر مشتمل کمیٹی بنائی۔انہوں نے بتایا کہ کراچی کے علاوہ 563 سرکاری رہائش گاہیں غیر قانونی قبضے میں تھیں جن میں سے 5 سو سولہ گھر واپس لے لیے ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کراچی میں امن و عامہ کی صورتحال پیدا ہو گئی تھی، اس لیے انہیں خالی کروانے میں مزید 2 مہینے کا وقت دیا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ گورنر سندھ عمران اسمٰعیل کراچی کے معاملے کو بذاتِ خود دیکھ رہے ہیں۔عدالت عظمیٰ نے آئی جی اسلام آباد کی غیر قانونی رہائش گاہ کا معاملہ وزیر ہاؤسنگ کو دیکھنے کی ہدایت کردی۔