اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)مہمند ڈیم کے افتتاح میں اب کچھ ہی دن باقی رہ گئے ہیں ایسے میں ڈیم کے ٹھیکے کے حوالے سے تنازعات بھی جنم لے چکے ہیں اور بولی جیتنے والی ڈیسکون کمپنی جس کا اس بولی میں چینی کمپنی گینروبا کیساتھ جوائنٹ وینچر ہے کے حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ کیونکہ یہ کمپنی دراصل وزیر تجارت عبدالرزاق دائود کی ہے لہٰذا مہمند ڈیم ٹھیکے کا
حصول دراصل مفادات کا ٹکرائو ہے ۔ اس حوالے سے مختلف سیاسی رہنمائوں کی جانب سے بھی تنقید سامنے آئی ہے اور مہمند ڈیم ٹھیکے کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ خود وزیراعظم عمران خان مفادات کے ٹکرائو کے حوالے سے واضح مؤقف رکھتے ہیں اور اس چیز کے سخت مخالف ہیں کہ کوئی بھی حکومتی عہدیدار اپنے اثرورسوخ کی وجہ سے فوائد حاصل کرے تاہم یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ وزیر تجارت عبدالرزاق دائود نے وزارت کا قلمدان سنبھالتے ہی ڈیسکون کمپنی کی ملکیت چھوڑ دی تھی اور اب یہ کمپنی ان کے صاحبزادے چلاتے ہیں تاہم سابق حکومتی معاشی ترجمان فرخ سلیم نے ایک نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے انکشاف کیا تھا کہ دورہ چین کے دوران عبدالرزاق دائود نے چینی کمپنی گینروبا کے حکام کے ساتھ وزیراعظم عمران خان کی ملاقات کروائی تھی اور یہ واحد کمپنی تھی کہ جس کے حکام کے ساتھ وزیراعظم عمران خان نے دورہ چین کے دوران ملاقات کی تھی۔ سیاسی رہنمائوں کی جانب سے وزیر تجارت عبدالرزاق دائود سے دبے لفظوں میں استعفے کا مطالبہ یا پھر ٹھیکے سے دستبرداری کا مطالبہ بھی سامنے آیا تاہم اب یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ مہمند ڈیم کی تعمیر سے متعلق پیشکش جانچنے کا عمل بھی متنازع اور غیر قانونی تھا۔ روزنامہ جنگ کی رپورٹ کے مطابق کنسلٹنٹ نے309ارب روپے
کے تعمیری منصوبےکی پیشکش جیتے کی راہ ہموار کی، حکام نے دعویٰ کیا ہےکہ جس وقت معاہدے کی توسیع کی گئی ایس ایم ای سی انٹرنیشنل بلیک لسٹ تھی۔تفصیلات کےمطابق ایک مشتبہ کنسلٹنٹ جو نیسپاک، ایس ایم ای سی انٹرنیشنل، اے سی ای پر مشتمل ہے، نے ’’سنگل اسٹیج ٹو انولپ ‘‘ کی جانچ کی اور چائنا گزوبا، ڈیسکون کے جوائنٹ وینچر کی جانب سے مہمند ڈیم منصوبے کی تعمیر
کیلئے 309ارب روپے کی پیشکش جیتنے کی راہ ہموار کی۔ حقیقت یہ ہے کہ نیسپاک ایک حکومتی ادارہ ہے جو پاور ڈویژن سے منسلک ہے، جبکہ ایس ایم ای سی انٹرنیشنل، اے سی ای کنسلٹنٹ کو عالمی بینک بلیک لسٹ کرچکا ہے۔ ڈیسکون کے مالک رزاق داؤد ہیں جو وزیراعظم کے مشیر برائے کامرس، ٹیکسٹائل و صنعت ہیں۔ اہم بات یہ کہ ایس ایم ای سی انٹرنیشنل کی سربراہی میں قائم کنسلٹنٹ
کمپنیوں کے اسی جوائنٹ وینچرکو تفصیلی انجینئرنگ ڈیزائن کی لاگت میں 160ملین روپے اضافے کاذمہ دار قرار دیا گیا تھا کیونکہ اس نے اپنے تفصیلی ڈیزائن میں ممکنہ زیادہ سے زیادہ سیلاب کے غلط اعداد و شمار شامل کئے تھے۔ عالمی بینک کی دستاویزات کے مطابق جو دی نیوز کے پاس دستیاب ہے، ایس ایم ای انٹرنیشنل پر بھارت میں 6ماہ کیلئے اور بنگلادیش میں 30ماہ کیلئے کام
کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی جبکہ اے سی ای کو بھی بنگلا دیش میں 30ماہ کیلئے بلیک لسٹ کردیا گیا ہے۔ لہٰذا حکام کی جانب سے استعمال کی جانیوالی اصطلاح ’آزاد کنسلٹنٹ‘ سوائے مذاق کے کچھ نہیں کیونکہ حکومت سے منسلک ادارہ کس طرح پیشکش کا غیر جانبدارانہ طور پر جانچ کرسکتا ہے۔ جہاں تک ایس ایم ای سی انٹرنیشنل، اے سی ای کنسلٹنٹ کا تعلق ہے، ان کو عالمی بینک
بلیک لسٹ کرچکا ہے اور یہ باعث حیرت ہے کہ کس طرح یہ ڈیم کی تعمیر کےلئے کی گئی پیشکش کی جانچ کرسکتے ہیں۔ ایس ایم ای سی انٹرنیشنل نے جوائنٹ وینچر کی سربراہی کرتے ہوئے مہمند ڈیم کا تفصیلی انجینئرنگ ڈیزائن 31اکتوبر 2017ءکو مکمل کیا ۔ اسے یہ کام 13مارچ 2014ءکو 937.86ملین روپے کی لاگت میں سونپا گیا تھااور ٹینڈر میں ٹھیکیداروں کے پیشکشوں کی
جانچ شامل نہ تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 7فروری 2017کو سینٹرل ڈیولپمنٹ ورکنگ پارٹی کے اجلاس کے منٹس کے مطابق، یہ انکشاف ہوتا ہے کہ ایس ایم ای سی انٹرنیشنل تفصیلی ڈیزائن کا کام مقررہ وقت اور لاگت سے مکمل نہ کرسکی تھی جس کے بعد واپڈا نے 1097.67ملین روپے کی لاگت والا تیسرا نظر ثانی شدہ پی سی ۔ون اجلاس میں پیش کیا۔ اجلاس میں یہ بھی انکشاف ہوا تھا کہ
ڈیزائن میں ایس ایم ای سی انٹرنیشنل کے سیلاب کی زیادہ سے زیادہ حد سے متعلق غلط اعدادو شمار شامل کی وجہ سے قومی خزانے کو 159.81ملین روپے کا نقصان پہنچا ہے۔ کہانی یہیں نہیں رکتی بلکہ اجلاس کے منٹس کے مطابق پانی و بجلی کے جوائنٹ سیکریٹری نے اس غلط اعدادو شمار اور اس کے نتیجے میں پہنچنے والے نقصان کی وجہ سے کنسلٹنٹ کمپنی پر جرمانہ عائد کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
سرکاری دستاویز سے انکشاف ہوتا ہے کہ ڈی جی ایم اینڈ ای نے اپنے ریمارکس میں لکھا تھا کہ سیلاب کی زیادہ سے زیادہ حد کے بارے میں غلط اعدادوشمار کے باوجود کنسلٹنٹ کمپنی کو نوازا جارہا ہے۔ کنسلٹنٹ کمپنی کو سزا دینے کی بجائے واپڈا نے اسے کام کرنے کی اجازت برقرار رکھی اور تفصیلی ڈیزائن کا کام 31اکتوبر 2017ءکو پورا ہوا۔تحقیقات، سرکاری دستاویزات اور اعلیٰ واپڈا حکام
کے انٹرویو سے انکشاف ہوا ہے کہ نیسپاک، ایس ایم ای سی انٹرنیشنل، اے سی ای کو پیش کش کی جانچ کا باقاعدہ طریقے سے ٹھیکہ بھی نہیں دیا گیا بلکہ واپڈا حکام نے اپنے طور پر انکے ٹھیکےمیں توسیع کی جس کے باعث پیشکش کی جانچ کے سارے عمل کو غیر قانونی اور متنازع بنادیا گیا۔ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ایس ایم ای وہی کمپنی ہے جس نے منصوبے کا تفصیلی ڈیزائن مکمل کیا تھا
اور اس کمپنی کے ساتھ معاہدہ 31اکتوبر 2017ءکو ختم ہوگیا تھا۔ معاہدے میں یہ نہیں تھا کہ ایس ایم ای ٹھیکیداروں کی پیش کش کا جائزہ لے گی لیکن تازہ ترین پیش رفت یہ ہوئی کہ واپڈا نے اپنے طور پر انکے ٹھیکےمیں توسیع کی جو کے غیرقانونی ہے۔ تاہم حکام کا کہنا ہے کہ واپڈا نے بولی کے عمل میں ردوبدل کی خاطر ایس ایم ای انٹرنیشنل کے معاہدے میں غیرقانونی طور پر توسیع کی
تاکہ ڈیم کی تعمیر کے ٹھیکیدار کی پیشکش کی بولی کے عمل کے بغیر جانچ کی جاسکے ، اور اس طرح پیپرا قوانین کی خلاف ورزی کی۔ حکام نے دعویٰ کیا کہ جس وقت ایس ایم ای انٹرنیشنل کے معاہدے کی توسیع کی گئی، کمپنی ورلڈ بینک کے پاس بلیک لسٹ تھی۔ ایس ایم ای سی انٹرنیشنل کے جنرل منیجر انجینئر محمد جمیل کا کہنا ہے کہ ایس ایم ای سی انٹرنیشنل کو 27ستمبر 2017ءسے 26ستمبر 2018ءتک بارہ ماہ کیلئے بلیک لسٹ کیا گیا تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ ایس ایم ای سی انٹرنیشنل اس مدت میں عالمی بینک کے کسی بھی منصوبے میں شریک نہیں ہوسکتی تھی۔