اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)سندھ میں تبدیلی لانے کا اعلان کرنیوالی پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت کو خود اپنے لالے پڑ گئے، اتحادی جماعتوں کی ناراضگی نے اپوزیشن کو مزید پیش قدمی کی جانب راغب کر دیا، عمران خان کی حکومت پر سوالیہ نشان لگ گیا۔ تفصیلات کے مطابق پی ٹی آئی حکومت نے ایسا لگتا ہے کہ سندھ میں تبدیلی لانے کے اعلان کے ساتھ بِھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈال لیا ہے
اور اس کو اس اعلان کے ساتھ ہی اپنے لالے پڑ گئے ہیں۔ صورتحال اس وقت اس لئے بھی زیادہ پریشان ہو گئی ہے کہ پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت میں شامل اتحادی جماعتیں وعدے پورے نہ ہونے کی وجہ سے شدید تحفظات کا شکار ہیں جبکہ پیپلزپارٹی کی جانب سے واضح طور پر سندھ حکومت گرانے یعنی گورنر راج لگانے کی صورت میں پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت کو گرانے کا اعلان کر دیا گیا ہے جبکہ پیپلزپارٹی کے ایک رہنما عاجز دھامرا نے پی ٹی آئی کے ووٹوں سے منتخب چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کی تبدیلی کی بھی بات کر دی ہے۔ عاجز دھامرا کا کہنا تھا کہ اگر اپوزیشن ایک ساتھ کھڑے ہو جائے تو چیئرمین سینٹ تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اگر قومی اسمبلی میں نمبر گیم پر نظر ڈالی جائے تو عمران خان کی حکومت بچانے یا گرانے میں ایم کیو ایم ، مسلم لیگ ق اور چار آزاد اراکین کا کردار نہایت اہم ہے۔ چھ پارلیمانی جماعتوں کی بیساکھیوں پر کھڑی پاکستان تحریک انصاف کی کمزور حکومت ڈگمگا سکتی ہے۔ قومی اسمبلی میں 342 کے اراکین میں سے اعداد وشمار کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کی 156 نشستیں ہیں۔ یم کیو ایم پاکستان کی 7، بلوچستان عوامی پارٹی اور مسلم لیگ ق کی 5،5 نشستیں، بی این پی کی چار، جی ڈی اے کی تین جبکہ عوامی مسلم لیگ اور جمہوری وطن پارٹی کی ایک ایک نشست ہے،جبکہ قبائلی علاقوں سے علی وزیر،محسن داوڑ،
سندھ سے آزاد رکن علی نواز شاہ اور بلوچستان سے اسلم بھوتانی سمیت قومی اسمبلی میں چار آزاد ممبران بھی موجود ہیں۔ لیگ ن کی ایوان میں 85، پیپلز پارٹی کی 54،ایم ایم اے کی 16 جبکہ اے این پی کی ایک نشست موجود ہے۔اس طرح قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی نشستوں کی کُل تعداد 156 بنتی ہے۔ اگر ایم کیو ایم ، ق لیگ ، بی این پی اور آزاد اراکین اپوزیشن کیساتھ مل جائیں تو حکومت کا تختہ آسانی سے الٹا جا سکتا ہے اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن اراکین کی تعداد 176ہو سکتی ہے جو کہ قائد ایوان بنانے کیلئے درکار 172ووٹوں سے چار ووٹ زائد رکھنے کی پوزیشن میں آجائیگی۔