اسلام آباد (آن لائن) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ایوی ایشن میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پی آئی اے کے 18 ہزار ملازمین میں سے بارہ سو ملازمین کی ڈگریاں جعلی ہیں۔ پی آئی اے میں سات افسران کو زبانی آرڈر پر بھرتی کیا گیا ہے جن کی تنخواہیں کسی اور وزارت دی دی جارہی ہیں۔ پی آئی اے کی فلائٹس میں مسافروں کے سامان کی چوری میں تمام عملہ ملوث ہوتا ہے۔ لندن کیلئے پی آئی ایکی سروس میں کلب کلاس کا نام تبدیل کیا جارہا ہے۔ کمیٹی نے پی آئی اے کے ہیڈ کوارٹر میں
ایف آئی اے کا آفس کھولنے پر شدید برہمی کا اظہار کیا‘ ائیرپورٹ پر کسٹم کی بلڈنگ میں دراڑیں آنے کی وجہ سیخالی کروالیا گیا ہے اس حوالے سے انکاری رپورٹ ایک ہفتے میں آجائیں گی۔ چیئرمین نے حاصل بزنجو کی سربراہی میں ذیلی کمیٹی بنا دی ہے جو جعلی ڈگریوں اور اسلام آباد ائیرپورٹ پر پل گرنے کی تحقیقات کرے گی۔ کمیٹی نے مسافروں کا اسلام آباد ائیرپورٹ پر سامان ملنے پر تاخیر کی وجہ سے کسٹم حکام کو آئندہ طلب کرلیا ہے کہ بتایا جائے کہ سامان کی چیکنگ میں تاخیر کیوں کی جاتی ہے۔ کمیٹی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر مشاہد اللہ کی سربراہی میں پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا جس میں سینیٹر شیریں رحمان‘ سینیٹر حاصل بزنجو ‘ سینیٹر نعمان وزیر ‘ سینیٹر ثمینہ سعید اور سینیٹر فیصل جاوید نے شرکت کی ۔ چیئرمین کمیٹی مشاہد اللہ نے کہا کہ پی آئی اے میں سفر کرنے والے مسافروں کے بیگ میں سامان نکالا جاتا ہے سامان چوری میں صرف ایک ایجنسی کے لوگ شامل نہیں ہوتے بلکہ مل کر چوری کرتے ہیں اور رولز کے مطابق مسافر کو پیسے کم دیئے جاتے ہیں اور سامان بھی تایر سے مسافر کو ملتا ہے خاص طور پر کلب کلاس کا سامان تاخیر سے ملتا ہے۔ ائیر پورٹ میں کسٹم کی بلڈنگ گرنے والی ہے اس میں جو لوگ ملوث ہیں ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے انہوں نے کہا کہ جعلی ڈگریوں میں ملازمین کو نکالنے کے حوالے
سے بڑی احتیاط سے کام لیا جانا چاہیے نوکریاں دینے کیلئے ہوتی ہیں نکالنے کیلئے نہیں۔ جب کسی کو ملازمت دی جاتی ہے تو اس وقت ملازمین کی ڈگریاں چیک کروائی جاتی ہیں لیکن جس نے اس وقت ڈگریاں چیک نہیں کروائیں ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ پی آئی اے کی یونین کے دفاتر بند نہ کئے جائیں۔ سی ای او پی آئی اے نے کمیٹی کو بتایا کہ اسلام آباد ائیرپورٹ پر کسٹم حکام کی چیکنگ کی وجہ سے سامان آنے میں تاخیر ہوتی ہے لاہور او کراچی میں ایسا نہیں ہورہا ۔
پی آئی ایک ے اٹھارہ ہزار ملازمین کی ڈگریاں چیک کروائی گئی ہیں ان میں سے دو سو ڈگریان جعلی نکلی ہیں ایک ڈگری چیک کروانے کیلئے چھ سو روپے دینے پڑتے ہیں انہوں نے کہا کہ سمگلنگ اور سامان چوری کیلئے سخت قوانین بنائے جارہے ہیں لندن والی فلائٹ میں کلب کلاس ختم نہیں کی جارہی اس کا نام بدل رہے ہین ایف آئی اے کو ایک ماہ سے ہیڈ آفس مین ایک کمرہ دیا گیا ہے۔ پی آئی اے کی یونین کے پاس 27 دفاتر ہیں اور 72 لوگ ویلفیئر کے کام میں لگے ہوتے ہیں ۔ 21 گاڑیاں ان کے پاس تھیں جن میں سے تیرہ گاڑیاں واپس لی گئی ہیں دو سے تین آفس خالی کروائے ہیں ۔ جعلی ڈگری کی وجہ سے دس فضائی میزبانوں کو فارغ کردیا گیا ہے۔ ڈی جی سول ایوی ایشن نے کمیٹی کو بتایا کہ کسٹم کی بلڈنگ میں دراڑوں کیلئے وزیراعظم نے وزراء کی کمیٹی بنا دی ہے ۔ سینیٹر شیری رحمن نے کہا کہ پی آئی اے مین زبانی آرڈر پر سات لوگوں کو بھرتی کیا گیا ہے ان کو کس کے آرڈر پر بھرتی کیا گیا ہے ایک طرف سے لوگوں کو نکالا جارہا ہے دوسری طرف حکومت من پسند لوگوں کو لارہی ہے۔ پی آئی اے میں دس ماہ سے الاؤنسز نہیں دیئے جارہے ہیں ان کو وردیاں نہیں مل رہیں۔ 28 اکتوبر کو سات لوگوں کو پی آئی اے میں ھبرتی کیا گیا ہے پی آئی اے کی یونین ختم نہیں ہوسکتی اب پیپلزپارٹی کی یونین اقتدار میں ہے اجلاس میں سی ای او غیر حاضر ہیں ان پر کمیٹی نے شدید برہمی کا اظہار کیا۔ سینیٹر نعمان وزیر نے کہا کہ پی آئی اے میں سیاسی بنیادوں پر یونین نہیں ہونی چاہیے جن لوگوں کی پی آئی اے میں جعلی ڈگریاں ہیں ان کے خلاف فوری کارروائی کی جانی چاہیے۔