اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے حکومت کی جانب سے جے آئی ٹی رپورٹ کی بنیاد پر 172افراد کے نام ای سی ایل میں ڈالنے پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دئیے ہیں کہ حکومت کو سندھ کی صوبائی حکومت گرانے کی اجازت نہیں دے سکتے، جعلی اکائونٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ ازخودنوٹس کیس کی سماعت کے دوران
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم نے جواب گزاروں کو جے آئی ٹی رپورٹ پر جواب داخل کرنے کا کہا اور حکومت نے ان کے نام ای سی ایل میں ڈال دیے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے عدالت نے جے آئی ٹی رپورٹ کی تاحال توثیق نہیں کی اور ساری کابینہ اور وکلا جے آئی ٹی رپورٹ پر تبصرے کررہے ہیں، ان کا اس سارے معاملے سے کیا تعلق ہے، رپورٹ کی بنیاد پر حکومت گرانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔172 افراد کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کے سارے معاملے پر حیرت ہوئی کہ کیسے نام ای سی ایل میں ڈالے گئے، وفاقی حکومت اس کی کیسے وضاحت دے گی۔پیپلزپارٹی کے وکیل لطیف کھوسہ نے عدالت میں چیف جسٹس کو بتایا کہ ان کی جعلی آڈیو بنا کر میڈیا میں لیک کی گئی جس پر چیف جسٹس نے جعلی آڈیو کا نوٹس لے لیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وزراء رات کو ٹی وی پر بیٹھ کر اپنی کارکردگی بتارہے ہوتے ہیں، تمام سیاستدان سن لیں، ہم نے قانون بنا کر اسمبلی کو بھجوائے ہیں۔سپریم کورٹ نے جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں آصف زرداری اور فریال تالپور کو ہفتے کے آخر تک جواب جمع کرانے کی مہلت دے دی۔عدالت نے فاروق ایچ نائیک کی مقدمے سے الگ ہونے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے انہیں آصف زرداری اور فریال تالپور کی وکالت جاری رکھنے کا حکم دیا۔عدالت نے جے آئی ٹی کی فاروق ایچ نائیک سے متعلق سفارشات بھی کالعدم قرار دے دیں۔
سماعت کا آغاز ہوا تو چیف جسٹس پاکستان نے 172 افراد کے نام ای سی ایل میں ڈالنے پر شدید برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ ‘یہ کام کس نے کیا ہے جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں اس معاملے کو دیکھ لیتا ہوں، چیف جسٹس نے کہا ہم خود اس معاملے کو دیکھ لیں گے۔چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ‘172 افراد کے نام ای سی ایل میں ڈالنا کیا کوئی عام بات ہے،
ملک کے دوسرے بڑے صوبے کے چیف ایگزیکٹو کا نام ای سی ایل میں کیسے ڈال سکتے ہیں، کل کو آپ کا اور چیئرمین نیب کا نام بھی ای سی ایل میں ڈال دیا جائے۔چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمے کے دوران کہا جواب گزاروں کو جے آئی ٹی رپورٹ پر جواب داخل کرنے کا کہا اور حکومت نے ان کے نام ای سی ایل میں ڈال دیے، مجھے تو اس سارے معاملے پر حیرت ہوئی ہے
کیسے نام ای سی ایل میں ڈالے گئے، وفاقی حکومت اس کی کیسے وضاحت دے گی۔عدالت نے حکم دیا کہ متعلقہ وزیر 15 منٹ میں عدالت میں پیش ہوں جب کہ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کیا ایسے ہی نام اٹھا کر ای سیل ایل میں ڈال دیے جاتے ہیں، متعلقہ وزیر کو کہیں سمری بھی ساتھ لے کر آئیں۔چیف جسٹس نے استفسار کیا جے آئی ٹی رپورٹ کے مندرجات کیسے لیک ہو گئے جس پر تحقیقاتی ٹیم
کے سربراہ احسان صادق نے کہا ہمارے سیکرٹریٹ سے کوئی چیز لیک نہیں ہوئی، میڈیا نے سنی سنائی باتوں پر خبریں چلائیں۔اس موقع پر وکیل لطیف کھوسہ نے عدالت کو بتایا کہ آصف زرداری اور فریال تالپور کی جانب سے فاروق ایچ نائیک اب پیش نہیں ہوسکتے، ان کا نام بھی ای سی ایل میں ڈال دیا گیا ہے اور جے آئی ٹی نے انہیں بھی ملزم بنا دیا ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا فاروق ایچ نائیک
کو پیش ہونے سے کون روک سکتا ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے عدالت نے جے آئی ٹی رپورٹ کی تاحال توثیق نہیں کی، رپورٹ کی بنیاد پر حکومت گرانے کی اجازت نہیں دے سکتے، ساری کابینہ اور وکلا جے آئی ٹی رپورٹ پر تبصرے کررہے ہیں، ان کا اس سارے معاملے سے کیا تعلق ہے۔سماعت کے دوران وکیل لطیف کھوسہ نے عدالت کو بتایا کہ ان کی جعلی آڈیو وائرل کر کے
ٹی وی پر چلائی گئی جس پر چیف جسٹس نے نوٹس لے لیا اور کہا کہ ایف آئی اے سے پتہ کرتا ہوں کس نے غلط ٹیپ چلائی۔سماعت کے دوران آصف زرداری کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے جواب جمع کرانے کے لیے وقت مانگ لیا اور کہا کہ جواب کے لیے 4 دن کا وقت دے دیں۔عدالت نے آصف زرداری اور فریال تالپور کو ہفتے کے آخر تک جواب جمع کرانے کی مہلت دے دی۔چیف جسٹس نے لطیف کھوسہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کھوسہ صاحب اپنے موکل کو بھی بتادیں انصاف ہوگا، جس نے کچھ غلط کیا ہے اسے بھگتنا ہوگا، نہ تکبر سے بات کریں گے نہ ہی ناانصافی کریں گے، یہاں صرف انصاف ہوگا اور کسی کے ساتھ غلطی یا ناانصافی نہیں ہونے دیں گے۔