اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)مشکوک کاروبار کیلئے جعلی/بےنامی اکاونٹ کھولنے کی کیا وجوہات تھیں؟ایف آئی اے جے آئی ٹی کے سعودی عرب میں زیر حراست اور زیر علاج اومنی گروپ کے چیف فنانشل آفیسر سے سوالات، ایکویٹی کی گردش، شکر/الکوحل کی فروخت سے حاصل شدہ پیسوں کی گردش، زمین کے پیسوں کی گردش، بھتہ وغیرہ، اسلم مسعود کے انکشافات سے
بھرپور جوابات، گھنائونے کھیل کا ماسٹر مائنڈ ہونے کا اعتراف کر لیا، روزنامہ جنگ کی رپورٹ میں تفصیلات سامنے آگئیں۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان کے معروف روزنامے روزنامہ جنگ میں جعلی اکائونٹس اور منی لانڈرنگ کیس کے حوالے سے اومنی گروپ کے چیف فنانشل آفیسر کے جے آئی ٹی کو دئیے گئے اعترافی کے حوالے سے رپورٹ نے ہلچل مچا دی ہے۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اومنی گروپ کے سعودی عرب میں زیر حراست اور جدہ کے ہسپتال میں زیر علاج اسلم مسعود نے جعلی اکائونٹس اور منی لانڈرنگ کے حوالے سے جے آئی ٹی کی جانب سے ارسال سوالنامے کا جواب دیتے ہوئےبھانڈا پھوڑتے ہوئے اعترافی بیان دیدیا ہے۔ اسلم مسعود سے جب جے آئی ٹی کے سوال کہ مشکوک کاروبار کیلئے جعلی/بےنامی اکاونٹ کھولنے کی وجوہات کیا تھیں تو ان کا اس سوال کے جواب میں مؤقف تھا کہ ایکویٹی کی گردش، شکر/الکوحل کی فروخت سے حاصل شدہ پیسوں کی گردش، زمین کے پیسوں کی گردش، بھتہ وغیرہ اس کی وجوہات تھیں۔ اسلم مسعود کا کہنا تھا کہ وہ مجید فیملی کی جانب سے کام کر رہے تھے ۔ درجنوں دیگر گروپوں کے ساتھ مشکوک کاروبار کی وجہ سے اس وقت جے آئی ٹی کی تحقیقات کی زد میں ہے۔ تفتیش کاروں کےسوال کے جواب میں اسلم مسعود نے بتایا کہ اس نے اومنی گروپ کے تمام انتظامی اور مالیاتی امور کی نگرانی کی،
اور یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ چپراسی سے لے کر ڈائریکٹر تک سب اس کی ذمہ داری تھی۔ ایف آئی اے کے ایک اعلیٰ زریعے نے نمائندہ جنگ سے گفتگو میں تصدیق کی کہ پاکستان نے انٹرپول سے سرکاری طور پر اسلم مسعود کو ملک بھیجنے کی درخواست کی ہے کیونکہ وہ جعلی اکاونٹس کی تحقیقات میں مطلوب ہیں۔تاہم اس بارے میں جب پیپلزپارٹی کے حلقے سے بات کی گئی تو کوئی جواب نہیں ملا،
دوسرے نے بھی منع کردیا، پھر ایک اور سے بات کی گئی تو اس نے کہا کہ سعودی عرب میں بیٹھا یہ شخص جوابات دے رہا ہے اصل حقائق تو عدالت میں مجسٹریٹ کے سامنے دیئے گئے بیان سے سامنے آئیں گے جب باقاعدہ ٹرائل ہوگا تو پھر اس کی کوئی قانونی حیثیت ہوگی، یہ سراسر پروپیگنڈہ، بکواس، جھوٹا اور پارٹی کو بدنام کرنے کی ایک کوشش ہے۔ ایف آئی اے کے ذریعے نے
مزید بتایا کہ اسلم مسعود چونکہ برطانوی شہری ہیں لہذا یہ تاحال واضح نہیں کہ وہ کب پاکستان کے حوالے کئے جائیں گے تاہم ان کا اعترافی بیان بم سے کم ثابت نہ ہوگا۔ اپنے اعترافی بیان میں اسلم مسعود نے تفتیش کاروں کو بتایا کہ انہوں نے 1992میں براہ راست انور مجید کے ماتحت کام شروع کیا، اس سے قبل وہ الائیڈ ٹریکٹرز سے وابسطہ تھے جو انورمجید کے ماتحت نہیں۔ اومنی گروپ 96-1995میں
ابھرا جبکہ مجید گروپ میں شمولیت سے قبل انہوں نے اپنا کیرئیر لاہور میں 1978میں اشرف گروپ آف کمپنیز کے ساتھ شروع کیا۔ اسلم مسعود نے اعتراف کیا کہ انہوں نے ڈائریکٹر اورینٹ آٹومیٹو، سی ای او لال شوگر ملز، روبی کون ڈیولپرز اینڈ رائزنگ اسٹار (ٹھٹہ شوگر ملز) کے ڈائریکٹر اور 50فیصد کے شیئر ہولڈرکی حیثیت سے کام کیا۔ انہوں نے یہ بھی اعتراف کیا کہ وہ اورینٹ آٹومیٹو،
روبی کون ڈیولپرز، اومنی پولیمر پیکجز، نوڈیرو شوگر ملز، اگرو فارمز ٹھٹھہ اور سدرن ایگرو فارمز کے دستخط کنندہ تھے۔ تفتیش کاروں کےسوال پر انہوں نے اعتراف کیا کہ انور مجید کی ہدایت پر انہوں نے مذکورہ کمپنیوں کے چیک جاری کئے اور 2015-2012کے درمیان جعلی اکاونٹس کھولنے کیلئے دستخط کئے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ 17ملین روپے کے ذریعے ایگرو فارمز ٹھٹہ اور دیگر کمپنیوں کی ایکویٹی چھپائی گئی۔ انہوں نے سمٹ بینک کے سربراہ حسین لوائی کو بھی جاننے کا اعتراف کیا کیونکہ انکے مجید گروپ سے کاروباری تعلقات تھے۔