اسلام آباد(این این آئی)وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا ہے کہ دیگر برادر اور پڑوسی ممالک کے امدادی پیکج کے باوجود پاکستان کیلئے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کا پروگرام ناگزیر ہے۔ایک انٹرویومیں اسد عمر نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو امدادی پیکج ملنے سے ادائیگیوں کا بحران 30 جون 2019 تک ختم ہو گا۔وزیر خزانہ نے کہا کہ گزشتہ برس 19 ارب ڈالر کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ہوا اور رواں برس پرانے قرضوں کی 9 ارب ڈالر کی ادائیگیاں ہیں،
ان دونوں کو ملائیں تو 28 ارب ڈالر بنتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ فوری بحران ختم ہونے کی بات اس لیے کہہ رہا ہوں کہ مالی سال اور اسٹیٹ بینک کی جانب سے مانیٹری پالیسی کے اقدامات کے باعث موجودہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 1 ارب ڈالر ماہانہ کی سطح پر پہنچ چکا ہے، جو کہ گزشتہ مئی، جون اور جولائی میں 2 ارب ڈالر ماہانہ تھا۔انہوں نے کہا کہ رواں برس موجودہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 12 سے 13 ارب ڈالر ہوسکتا ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ بنیادی معاشی اصلاحات کا سلسلہ جاری ہے، تاہم وقت کی ضرورت ہے کہ آئی ایم ایف کا ایک پروگرام حاصل کرلیا جائے بشرط یہ کہ عالمی مالیاتی ادارے کی شرائط پاکستان کے حق میں بہتر ہوں۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آئی ایف ایم نے اپنی شرائط پیش کردی ہیں جس پر غور و فکر جاری ہے اور اگر شرائط کی بنیاد پر بات آگے نہیں بڑھی تو یقیناًبڑا چیلنج ہوگا۔انہوں نے کہاکہ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات میں بڑا چیلنج سمت نہیں ہے بلکہ تمام بحث و مباحثہ ادائیگیوں کے طریقہ کار پر ہوگا۔انہوں نے کہا کہ میرے متعدد انٹرویوز موجود ہیں جن میں بیل آؤٹ کو ناگزیر قرار دیا لیکن بیل آؤٹ کون کرے گا یہ بحث ضروری تھی۔انہوں نے کہاکہ وزیر خزانہ کا قلمدان اٹھانے سے قبل آخری انٹرویو میں واضح کردیا تھا کہ دو ممکنہ راستے ہیں جس میں ایک بردار ممالک سے امدادی پیکج اور دوسرا آئی ایم ایف ہے اور ممکنہ طور پر دونوں راستوں کو بیک وقت اپنائیں گے۔انہوں نے کہاکہ وزیر خزانہ کا قلمدان اٹھانے کے 10 روز بعد ہی آئی ایم ایف کو فون کرکے واضح کردیا تھا کہ وہ اپنی ٹیم پاکستان بھیجیں اوراپنی رپورٹ تیار کرلیں اور جب ضرورت پڑے گی تو قرضہ لیں گے۔
انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے میں تاخیر کی باتوں میں کوئی صداق نہیں ہے۔اسد عمر نے کہا کہ گزشتہ 10 برس سے خسارے میں ڈوبے مالیاتی اداروں کی نجکاری پر بحث جاری ہے، تقریباً 3 سے 4 درجن ادارے نجکاری لسٹ میں موجود ہیں لیکن مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے نجکاری کے لیے کوئی فیصلہ نہیں کیا، جبکہ اسے پارلیمنٹ میں درکار اکثریت حاصل تھی اور جب نواز شریف کی سہولت کے لیے قانون کی ضرورت پڑی تو 48 گھنٹے میں قانون پارلیمنٹ سے پاس کرا لیا گیا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت پہلے 90 دن میں واضح کر چکی ہے کہ کن اداروں کو نجکاری میں شامل کیا ہے اور کس کو نہیں، جبکہ نواز شریف کی حکومت نے اپنے دور اقتدار میں صرف ایک چھوٹے سے یونٹ کی نجکاری کی تھی۔
انہوں نے اسٹیل ملز سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حالات میں اسٹیل ملز کوئی مفت میں بھی نہیں لے گا، اسٹیل ملز کو مالی یا تکنیکی نہیں بلکہ گورننس کا مسئلہ درکار ہے، سب کی نظر مزدور طبقے پر جاتی ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ کابینہ کے اگلے اجلاس میں ہولڈنگ کمپنی کا مسودہ پیش کریں گے جس میں وزارت قانون کی مشاورت بھی شامل ہے، ہم اسٹیل ملز ایسے لوگوں کے ہاتھ میں دیں گے جو کمپنیوں کو چلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔فلاحی ریاست کے تصور سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ متعدد شعبوں میں اصلاحات کا سلسلہ جاری ہے تاہم موجودہ حالات میں حکومت نے ‘ای او بی آئی’ میں پینشن کی رقم بڑھائی، چھوٹے گریڈ کے سرکاری ملازمین کے لیے 10 لاکھ گھر تعمیر کیے جارہے ہیں اور دو بڑی اسکیموں کا اگلے 10 روز میں وزیراعظم عمران خان اعلان کر دیں گے۔