نیویارک(این این آئی)پاکستان نے عالمی برادری پرزور دیا ہے کہ وہ مہاجرین کی میزبانی کرنیوالے ممالک کو قرض دینے کی بجائے ان کی مالی مدد کرے اور ترقی اور انسانی ہمدردری کی بنیاد پر امداد میں فرق کو ملحوظ خاطر رکھے ، جنگوں، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور لوگوں کے طویل عرصہ سے بے گھر ہونے کی صورتحال نے وباؤں کی شکل اختیار کر لی ہے،
پاکستان نے معاشی مشکلات کے باوجود مہاجرین کو تحفظ فراہم کرنے کے عالمی اصولوں کے تحت افغان مہاجرین کی میزبانی جاری رکھی ہے۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے جنرل اسمبلی کی کمیٹی برائے سماجی، انسانی و ثقافتی امور کو ایک مباحثے کے دوران کہا کہ دنیا بھر میں بے گھر ہونے والے افراد کی تعداد بلند ترین سطح پر ہے، یہ مسئلہ ایک بڑی تباہی میں بدل سکتا ہے اس لئے عالمی برادری مہاجرین کے عالمی بحران کو حل کرنے کے لئے اقدامات کرے۔پاکستانی مندوب نے کہا کہ جنگیں، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور لوگوں کے طویل عرصہ سے بے گھر ہونے کی صورتحال نے وباؤں کی شکل اختیار کر لی ہے۔اس صورتحال کا سامنا کرنے والے لوگوں کی بڑی تعداد اس بات کی متقاضی ہے کہ عالمی برادری اس پر فوری توجہ دے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت شام، میانمار، فلسطین، افغانستان اور جنوبی سوڈان میں موجود صورتحال کے باعث ہزاروں افراد بے گھر ہو رہے ہیں۔85 فیصد مہاجرین کا سب سے زیادہ بوجھ کم اور اوسط آمدنی والے ممالک اٹھا رہے ہیں جبکہ ترقی یافتہ اور امیر ممالک پناہ کی درخواستیں مسترد کرکے مہاجرین کا بوجھ اٹھانے سے فرار کا رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے مہاجرین کی ذمہ داری میں آنیوالے مہاجرین کا ساٹھ فیصد صرف دس ممالک میں مقیم ہے۔دوسری طرف پاکستان نے لاکھوں افغان مہاجرین کو کئی عشروں تک اپنے ہاں پناہ دے کر بے مثال فیاضی اور دریا دلی کا مظاہرہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں موجود افغان مہاجرین کی تعداد دوسری جنگ عظیم کے بعد کسی ایک ملک میں قیام پذیر مہاجرین کی سب سے زیادہ تعداد ہے اس کے باوجود ہم نے ان کے لئے اپنے ملک میں اور اپنے دلوں میں جگہ بنائی ہے کیونکہ یہ ہمارا انسانی اور دینی فریضہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے معاشی مشکلات کے باوجود مہاجرین کو تحفظ فراہم کرنے کے بین الاقوامی اصولوں کے تحت افغان مہاجرین کی میزبانی جاری رکھی ہے۔عالمی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ مہاجرین کی میزبانی کرنے والے ممالک کو قرضوں کی بجائے ان کی مالی مدد کرے اور اس سلسلہ میں ترقی اور انسانی ہمدردری کی بنیاد پر امداد میں فرق کو ملحوظ خاطر رکھے ۔انہوں نے کہا کہ مہاجرین کے مسئلہ کو مستقل بنیادوں پر حل کرنے کے لئے اس کی بنیادی وجوہات بشمول تنازعات کے سیاسی حل پر بھی توجہ دی جائے ۔