اسلام آباد (نیوز ڈیسک) معروف سیاستدان و کالم نویس بابر اعوان اپنے کالم اسرائیلی طیارہ یا امدادی بیڑہ میں لکھتے ہیں کہ معجزے اب نہیں ہوتے البتہ کرامات جاری ہیں۔ لیکن کوئی دارالافتاء ہی بتا سکے گا، کرامتیں کن لوگوں کے لیے برپا ہوتی ہیں۔ تاریخ، قانون، سیاسیات اور مذہب کے طالب علم کے لیے کرامت کا فیصلہ کرنا مناسب نہیں۔ ہاں البتہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی دنیا میں کرامات کا ظہور ہوتا رہتا ہے‘ مگر مفت میں نہیں۔
مثال کے طور پہ دارالحکومت کے ہوائی اڈے پر اسرائیلی جہاز کا نزول، قیام اور مسافرت۔ اس خبر کا فوری نتیجہ ٹی وی سکرینوں پر دکھائی دیا۔ چیف جسٹس جناب ثاقب نثار صاحب کے احکامات کے ہاتھوں پکڑی گئی اربوں، کھربوں روپے کی شکر چوری کے مقابلے میں اسرائیلی جہاز کی اسلام آباد آمد کی خبر۔ اس خبر کا ایک پس منظر بھی ہے۔ جو ہم سب جانتے ہیں‘ اور وہ ہے وزیر اعظم عمران خان کے خطاب کا یہ جملہ ”یاد رکھو میرے دور میں کوئی این آر او نہیں ملے گا‘‘۔ بظاہر اس جملے کا کوئی مخاطب نہیں ہے۔ جملے میں کسی کا بھی نام نہیں لیا گیا۔ نہ حدود اربعہ اور نہ ہی حلیہ بیان ہوا۔ سب جانتے ہیں‘ پاکستان میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 300 سے زائد سیاسی جماعتیں رجسٹرڈ کر رکھی ہیں۔ ان میں سے 10/12 پارٹیاں صوبائی اسمبلیوں، قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اپنا اپنا وجود رکھتی ہیں۔ اب دلچسپ ترین بات دیکھ لیجئے کہ وزیر اعظم کے اس جملے کے جواب میں 300 میں سے صرف تین جماعتیں از خود بول اٹھیں۔ پہلی الیکشن 2018ء میں دائمی اقتدار سے محروم شدہ مذہب کے نام پر سیاست کرنے والی کے پی اور بلوچستان کے سرحدی علاقوں تک محدود جماعت۔ دوسری جمہوری پارٹی اور تیسری مفروری پارٹی۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ تینوں جگہ سے تین ہی آوازیں اٹھیں۔ پہلی آواز نے کہا: ہم نے این آر او نہیں مانگا۔ دوسری کی طرف سے صدا آئی: این آر او مانگنے والوں کے نام بتاؤ۔ تیسری آواز آئی: قومی ادارے احتساب کا جواب نہیں ہم سے انتقام لے رہے ہیں۔
مطلب صاف ہو گیا‘ احتساب مت کرو۔ مک مکا کر لو۔ یعنی ونڈ کھاؤ اور کھنڈ کھاؤ۔ وزیر اعظم عمران خان کی تقریر سے پہلے، بلکہ سعودی عرب کے دورہ ثانی سے ایک دن پہلے وزیر اعظم ہاؤس کے ایک چھوٹے سے اکٹھ میں نیب قانون پر بات ہوئی۔ کسی نے کہا: اس قانون کو ریفارم کر لینا چاہئے‘ اپوزیشن کا بھی مطالبہ ہے۔ میں نے وقفہ ڈالے بغیر عرض کیا: قوم اس مرحلے پر اسے ریفارم نہیں مک مکا سمجھے گی‘ اور جائز طور پر۔ وہ جنہوں نے حساس ترین موضوعات پر متفقہ آئین سازی اور قانون گری کو بھی ہاتھ ڈالا‘
اگر وہ چاہتے تو قانون میں ریفارم نہ ہو جاتی۔ وزیر اعظم کا موقف تب بھی یہی تھا: نو این آر او۔ انہوں نے اپنے کالم میں مزید لکھا کہقومی تاریخ کا ریکارڈ درست کرنے کے لئے آئیے آلِ شریف کے تیسرے دورِ اقتدار میں واپس چلتے ہیں۔ یہ پارلیمنٹ ہاؤس کے سب سے بڑے کمیٹی روم کا اجلاس ہے۔ کمیٹی ہے قانون و انصاف کی۔ اس وقت کے نون لیگی وزیر قانون تھے زاہد حامد۔ حکومتی رکن سلیم ضیاء ایڈووکیٹ، اعتزاز احسن، فاروق نائیک، عائشہ رضا فاروق، سینیٹر جاوید عباسی اور بہت سے دوسرے۔ وزارتِ قانون و انصاف کے نمائندے،
پارلیمانی امور کے کارندے‘ اور حکومتی اتحاد کی تمام پارٹیوں کے چنیدہ ارکان بھی۔ موضوع تھا: احتساب کے قومی ادارے کی تشکیلِ نو اور احتساب کے قانون کی ترتیبِ جدید۔ حکومت ترمیم تو کیا کرتی‘ اپوزیشن سائیڈ کی ہر تجویز پر نفی میں سر ہلا کر دلائل کے انبار لگا رہی تھی۔ سارے دلائل کا بنیادی نکتہ یہی تھا کہ اگر اپوزیشن کی بڑی جماعت کا لیڈر چور نہیں ہے تو پھر احتساب کے ادارے اور قانون میں ترمیم کا شور کیوں بلند کر رہی ہے۔ ایوانِ بالا کی لاء اینڈ جسٹس کمیٹی کے اس اجلاس کی کارروائی اور دو عدد سابق نون لیگی وزرائے اعظم کے بیان ملا کر پڑھیں تو بات مزید کھل جائے گی۔
ایک نے کہا: یہ قانون ڈریکولا نے بنایا۔ پی ٹی آئی کی حکومت اسے فوراً ختم کر دے۔ کمیشن مافیا اور کرپٹ اشرافیہ کا احتساب کرنا ریاستی اداروں کا نہیں ووٹ دینے والوں کا حق ہے۔ دوسرا بولا: حکومت سے بچھڑ کر زندہ ہیں، آج بہت شرمندہ ہیں۔ شرمندگی کی وجہ یہ بتلائی کہ ہم اپنے دورِ حکومت میں احتساب کے قانون کو ختم نہ کر سکے۔ نیب قانون سے خوف زدہ ان دونوں شرمندہ وزرائے اعظم کا سفرِ ندامت اس سے بہت ہی زیادہ طویل ہے۔ جس کا دونوں نے اعتراف کر لیا۔ اس سٹریک آف شیم کا آغاز سال 1997ء سے ہوتا ہے۔ جب اپنے سیاسی مخالفین کی ساکھ مجروح کرنے اور انہیں اپاہج کر دینے کے لیے دو تہائی اکثریت والے بھاری مینڈیٹ کے نشے میں دھت آلِ شریف نے بے رحم احتساب کا نعرہ لگایا تھا۔ قانون کی دنیا میں کہتے ہیں: بندہ جھوٹ بو ل سکتا ہے‘
لیکن دستاویزات نہیں۔ انہوں نے مزید لکھا کہ صرف 2سال بعد 1999ء میں آلِ شریف اسی قانون کے تحت پکڑی گئی۔ مگر قانو ن کے خاتمے کا مطالبہ کرنے کے بجائے اسی قانون کے تحت پلی بارگین کے ذریعے سے چوری کے اثاثے نیب کو واپس کیے۔ خود جدہ اور لندن میں چورستان آباد کر لیے۔ چور تو چور ہی کو اذنِ رسائی دے سکتا ہے۔ لیکن جس کی کمائی لٹ گئی اور کمائی بھی قومی شخصی نہیں‘ وہ این آر او کیونکر دے سکتا ہے۔ اس ہفتے اسرائیلی طیارے کے نزول کو ملک میں جاری اینٹی احتساب قومی مہم سے فوکس ہٹانے کا پہلا ہوائی بیڑہ بنایا گیا۔ ہو سکتا ہے اگلے ہفتے کسی اہم عہدے پر کوئی تازہ تعیناتی این آر او کا ثبوت بنا کر دوسرا کرپشن بچاؤ بیڑا مشہور کیا جائے۔ لیکن ملک کے اداروں کا بیڑہ غرق کرنے والوں کے لیے بیڑہ ہوائی ہو، بحری ہو یا زمینی کسی کام نہیں آئے گا۔ سب جانتے ہیں پاکستان کے لیے احتساب سے اقتصاد تک شروعات و آغاز کا یہ پہلا مگر حتمی‘ آخری موقع ہے۔ ترقی پذیر قوموں کو مقابلے کی دنیا میں ایسے چانس بار بار نہیں ملتے۔