اسلام آباد(نیوز ڈیسک ) وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار اور احسن گجر نے نے ڈی پی او پاکپتن کیس کی تحقیقاتی رپورٹ مسترد کر دی۔ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا ڈی پی او پاکپتن کی تحقیقاتی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے کہناتھا کہ خالق داد لک کی انکوائری رپورٹ ربڑ اسٹمپ اور مفروضوں پر مبنی ہے، رپورٹ انکوائری سے زیادہ ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کا بیان ہے ،
خالق داد لک پنجاب حکومت سے مخالفت رکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں۔ ہفتہ کو وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار نے سپریم کورٹ میں واقعے کی انکوائری رپورٹ سے متعلق اپنا جواب جمع کروادیا ہے جس میں رپورٹ کو غیر متوازن اور رضوان گوندل کی طرف داری پر مبنی قرار دیا ہے۔ عثمان بزدار نے کہا کہ بطور وزیراعلی پنجاب میں نے اپنے عہدے اور اختیارات کا غلط استعمال نہیں کیا تفتیشی افسر خالق دادلک نے ڈی پی او رضوان گوندل کے بیان کو انتہائی مقدس سمجھا جب کہ دیگر لوگوں کے بیانات کو بلا جواز رد کر دیا۔وزیر اعلی پنجاب نے خالق داد لک کی انکوائری رپورٹ کو ربڑ اسٹمپ اور مفروضوں پر مبنی قرار دیتے ہوئے کہا کہ خالق داد لک کی رپورٹ انکوائری سے زیادہ ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کا بیان ہے، اگر رپورٹ میں رضوان گوندل کے موقف کی حمایت کرنی تھی تو ایسی انکوائری کی ضرورت ہی نہیں تھی۔عثمان بزدار نے کہا کہ خالق داد لک پنجاب حکومت سے مخالفت رکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ پنجاب حکومت نے انہیں آئی جی پنجاب نہیں لگایا تاہم حقیقت یہ ہے کہ آئی جی پنجاب لگانے کی فہرست سے ان کا نام پنجاب حکومت نے نہیں بلکہ وفاقی حکومت نے نکالا۔دوسری جانب ڈی پی او پاکپتن تبادلہ ازخود نوٹس کیس میں احسن جمیل گجر نے اپنا جواب سپریم کورٹ میں جمع کرا تے ہوئے کہا ہے کہ خالق داد لک کی رپورٹ مبہم اور غیر واضح ،
انکوائری افسر نے حقائق کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا ، وزیر اعلی پنجاب کے پاس جو بات کی گئی تھی وہ نیک نیتی اور قواعد و ضوابط کے مطابق تھی اور میں نے کسی بھی انتظامی امور میں مداخلت نہیں کی،میری حد تک ہونے والی عدالتی کارروائی کو ختم کیا جائے۔ تفصیلات کے مطابق وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کے دست راز احسن جمیل گجر نے سربراہ نیکٹا کی رپورٹ پر سنگین
اعتراضات اٹھا دیئے ۔ احسن جمیل گجر کی جانب سے جمع کرایا گیا جواب تین صفحات پر مشتمل ہے۔احسن جمیل گجر نے اپنے لکھے گئے جواب میں موقف اختیار کیا ہے کہ خالق داد لک کی رپورٹ مبہم اور غیر واضح ہے جبکہ انکوائری افسر نے حقائق کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے اور نیکٹا چیئرمین نے بھی ریکارڈ کیے گئے بیانات کو حقائق پر نہیں پرکھا۔رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے
کہ وزیر اعلی پنجاب کے پاس جو بات کی گئی تھی وہ نیک نیتی اور قواعد و ضوابط کے مطابق تھی اور میں نے کسی بھی انتظامی امور میں مداخلت نہیں کی۔انہوں نے کہا کہ میرے پاس کوئی سرکاری یا عوامی عہدہ نہیں ہے اور میں ایک عام شہری ہوں اس لیے میرے خلاف ضابطہ کار کی خلاف ورزی پر انضباطی کارروائی نہیں ہو سکتی۔ میں اپنی اس ملاقات پر پہلے ہی عدالت کے سامنے ندامت کا اظہار کر چکا ہوں۔احسن جمیل نے عدالت سے استدعا کی کہ میری حد تک ہونے والی عدالتی کارروائی کو ختم کیا جائے کیونکہ ملاقات میں مانیکا خاندان کے ساتھ پولیس رویے پر بات کی گئی تھی جو خاندانی دوست ہونے کی بنا پر کی گئی تاہم میں ملکی قوانین کا احترام کرتا ہوں۔