کراچی(این این آئی)سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی(SECMO) کے ڈائریکٹر مائننگ اینڈ آپریشن سید مرتضی اظہر رضوی نے کہاہے کہ تھر بلاکii میں کوئلے کے ذخائر 50 سال تک 5 ہزار میگاواٹ بجلی فراہم کر سکتے ہیں جو ملک کو توانائی کے بحران سے نکالنے کے لیے کافی ہے ۔پاکستان میں اس وقت پٹرولیم مصنوعات سے بجلی بنائی جا رہی ہے ، جو بہت مہنگی پڑتی ہے ، پاکستان میں اربوں ٹن کوئلہ مدفون ہے مگر اسے نہ نکال کر ملک کو قرضوں کی دلدل میں دھنسا دیا گیا ہے ۔
تھر پارکار میں 3ارب ڈالرز کا کول مائننگ اور پاور پروجیکٹ منصوبے کا پہلا مرحلہ تیزی سے تکمیل کے مراحل کی جانب گامزن ہے۔معینہ مدت سے پانچ ماہ قبل منصوبہ مکمل کرکے رواں سال کے آواخر میں330میگاواٹ بجلی نیشنل گرڈ میں شامل کردی جائیگی۔ تھر میں ٹیکنائیڈ کول ہے ، جو دنیا میں موجود کوئلے ہی کی طرح اور بجلی بنانے کے قابل ہے ۔بھارتی راجستھان میں کوئلہ تقریبا ختم ہو چکا ہے اور پاور پلانٹ چلانے کے لیے بھارت کوئلہ درآمد کر رہا ہے ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے’’ این این آئی‘‘ سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کیا ۔انہوں نے بتایا کہ سندھ کے ضلع تھر پارکار میں 3ارب ڈالرز کا کول مائننگ اور پاور پروجیکٹ منصوبے کا پہلا مرحلہ تیزی سے تکمیل کے مراحل کی جانب گامزن ہے ۔ کول مائننگ کا 89 فیصد اور پاور پروڈکشن کا 90 فیصد کام مکمل ہو چکا ہے ۔ رواں سال دسمبر میں بجلی نیشنل گرڈ کو فراہم کر دی جائے گی جبکہ کمرشل سطح پر کام آئندہ سال جون میں شروع ہو گا ۔ ہم مقررہ وقت سے 5 ماہ قبل ہی منصوبے کا پہلا مرحلہ مکمل کر لیں گے ۔ کوئلے کی تلاش کے لیے اب تک 148 میٹر کی کھدائی کی جا چکی ہے ۔ جون 2018 میں پہلی مرتبہ کوئلہ نکلا تھا لیکن وہ بجلی بنانے کے قابل نہیں تھا ۔ اس لیے ہم مزید کھدائی کر رہے ہیں ۔ 160 میٹر پر اچھا کوئلہ نکلے گا ، جس کو پاور پروڈکشن کے لیے استعمال کیا جا سکے گا ۔ مجموعی طور پر ہم `190 میٹر تک کھدائی کریں گے ۔ انہوں نے بتایا کہ پہلے مرحلے میں 1.6 اسکوائر کلو میٹر پر مائن کی کھدائی
کر رہے ہیں جس کے لیے 24گھنٹے کام ہو رہا ہے ۔ 17 ایگزاکویٹر کھدائی ، 125 ڈمپر مٹی نکال رہے ہیں ۔ ہم اب تک پانی کی 2 تہہ نکال چکے ہیں اور تیسری تہہ کی جانب گامزن ہیں ۔ تیسری تہہ نکالنے کے بعد کوئلہ نکالنا شروع کر دیں گے ۔ مائن سے پانی نکالنے کے لیے 29 جدید ٹیوب ویل لگائے گئے ہیں جو کھدائی سے قبل ہی زمین سے پانی نکال لیتے ہیں ۔ ڈائریکٹر مائننگ اینڈ آپریشن نے بتایا کہ تھر کول مائننگ پروجیکٹ ایس ای سی ایم کی زید نگرانی چل رہا ہے ۔ منصوبے میں 2کمپنیاں مل کر
کام کر رہی ہیں ۔ ایک مائنی کمپنی ہے اور ایک بجلی کی ۔ پروجیکٹ میں سندھ حکومت کا حصہ 54 فیصد ہے منصوبے میں شامل 6 کمپنیاں 46 فیصد کی حصے دار ہیں ۔انہوں نے کہا کہ 3 ارب ڈالرز کے حکومت اور پرائیویٹ سیکٹر کے منصوبے میں سندھ گورنمنٹ اور وفاقی حکومت نے انفرا سٹرکچر پر ایک ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کی ہے جبکہ ایس سی سی ایم سی 2 ارب ڈالرز کی انویسٹمنٹ کر رہی ہے ۔ 845 ملین ڈالرز کی سرماری کوئلے پر جبکہ 1.1 ارب ڈالرز پاور پلانٹ پر
انویسٹمنٹ ہے ۔ وفاقی حکومت نے نیشنل گرڈ کو بجلی کی فراہمی کے لیے 275 کلو میٹر کی لائی ٹیشن تاریں بچھا کر دی ہیں ۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں 185 ٹن کوئلہ موجود ہے ، جس میں 175 ٹن کوئلہ تھر میں ہے ۔ راجستھان اور تھر میں جو کوئلہ موجود ہے ،اس میں 10 فیصد بھارت کے پاس باقی 90 فیصد پاکستان میں ہے۔ بھارت نے 1948 ء میں ہی راجستھان سے کوئلہ نکالنا شروع کر دیا تھا اور بجلی بنانے کے لیے وہاں 8 پاور پلانٹس لگائے گئے تھے ۔
راجستھان میں کوئلہ تقریبا ختم ہو چکا ہے اور پاور پلانٹ چلانے کے لیے بھارت کوئلہ درآمد کر رہا ہے ۔ تھر میں ٹیکنائیڈ کول ہے ، جو دنیا میں موجود کوئلے ہی کی طرح اور بجلی بنانے کے قابل ہے ۔ اس میں 48فیصد پانی ہے ۔ اگر تھر کول سے پانی نکال دیا جائے تو اس کی ٹرانسپورٹیشن کی جا سکتی ہے ۔ لکی سیمنٹ پورٹ قاسم کراچی پر 660 میگاواٹ کا کول پاور پلانٹ لگا رہی ہے ۔ اس میں 80 فیصد کوئلہ تھر کا اور 20 فیصد امپورٹڈ کول استعمال ہو گا ۔ پیسے بچانے کے لیے ایس ای سی ایم سی نے
تھر میں ہی پاور پلانٹ لگایا ہے ۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ضلع تھر پارکر کا رقبہ 19 ہزار اسکوائر کلومیٹر ہے ، جس علاقے میں کوئلہ موجود ہے ، اس کا رقبہ 9 ہزار کلو میٹر ہے ۔ سندھ حکومت نے ابھی 100,100 کلو میٹر کے 13 بلاکس بنائے ہیں اور 6 بلاکس کو مختلف کمپنیوں کو الاٹ کیا ہے ۔ اس سے اندازاہ لگایا جا سکتا ہے کہ تھر میں توانائی کا کتنا بڑا ذخیرہ موجود ہے ۔ 150 ارب ٹن کوئلے سے 50 ارب ٹن تیل کے برابر توانائی بنائی جا سکتی ہے ۔ تھر میں سعودی عرب اور
ایران کی تیل انرجی کے برابر کوئلے کی توانائی ہے ۔ اگر ہم وقت پر کوئلے سے پاور پروڈکشن کر رہے ہوتے تو آج پاکستان بجلی ایکسپورٹ کر رہا ہوتا ۔ ایک سوال پر مرتضی رضوی نے کہا کہ ایس ای سی ایم سی بلاک نو میں کام کر رہی ہے ۔ کمپنی کو یہ علاقے 60 سال کے لیے لیز پر فراہم کیا گیا ہے ۔ تھر بلاک 11 میں بھورے کوئلے کے 2.039 ارب ٹک کے ذخائر ہیں ، جن میں سے 1.57 ارب ٹن کی کان کنی کی جا سکتی ہے ۔ منصوبے کے تحت کان کنی کی
مجموعی صلاحیت 20.6 میٹرک ٹن ہو گی ، جسے 30.4 میٹرک ٹن تک توسیع دی جا سکے گی جبکہ توانائی کی پیداوار کی صلاحیت مکمل استعداد کے مطابق 3 ہزر 960 میگاواٹ تک ہو گی ۔ کان کنی کے منصوبے کو 5 مرحلوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پلا مرحلہ دسمبر 2018 تک مکمل ہو جائے گا ۔ پہلے مرحلے میں کان کو 3.8 میٹرک ٹن سالانہ کی استعداد کے مطابق تیار کیاگیا ہے جبکہ 330 میگاواٹ کے Seb Critical پلانٹس زیر تعمیر ہیں ، جن میں سے پہلا یونٹ دسمبر 2018 سے کام
شروع کر دے گا اور دوسرا یونٹ مارچ سے اپریل 2019 کے درمیان تیار ہو کر 2.8 میٹرک ٹن سالانہ کی مکمل صلاحیت کو استعمال کر سکے گا ۔ دوسرے مرحلے میں مائن کو 7.6 میٹرک ٹن سالانہ تک توسیع دی جائے گی اور 330 میگاواٹ کے مزید دو پاور پلانٹس کی توانائی کو نیشنل گرڈ میں شامل کیا جائے گا ۔ تیسرے حصے میں مائن کو 15.2 میٹرک ٹک سالانہ توسیع دی جائے گی ، جس سے ایک ہزار 320 میگاواٹ بجلی پیدا ہو گی ۔ چوتھے مرحلے میں مائن کو 22.8 میٹرک ٹن سالانہ
توسیع دی جائے گی ، جس سے ایک ہزار 320 میگاواٹ مزید بجلی پیدا ہو سکے گی ۔ پانچویں اور آخری مرحلے میں کان کنی کو اس کی مکمل استعداد کار کے مطابق 30.4 میٹرک ٹن سالانہ تک توسیع دی جائے گی ، جس سے مزید ایک ہزار 320 میگاواٹ بجلی سسٹم میں شامل ہو گی ، جس سے تھرکول بلاک 11 سے پیدا ہونے والی بجلی کی مجموعی پیداوار 5 ہزار میگاواٹ ہو جائے گی ۔انہوں نے کہا کہ پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت اینگرو پاور جین تھر پرائیویٹ لمیٹڈ ( ای پی ٹی ایل ) اور
سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی سب سے بڑی نجی سرمایہ کار ہیں اور یہ واحد سرمایہ کاری ہے ، جن کی 95 فیصد ملکیت پاکستانیوں کے پاس ہے ۔ ایک سوال کے جواب میں مرتضی رضوی نے کہا کہ کوئلے کو جلانا ماحولیات کے لیے نقصان دہ ہونے کی بات درست نہیں ۔ دنیا کی 40 فیصد آبادی کوئلے کو توانائی کے طور پر استعمال کرتی ہے ۔ ماحولیات کے تحفظ کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے سندھ اینگرو تھر پاور پلانٹ کی چمنی کو 160 میٹر اونچا رکھا ہے
حالانکہ سندھ انوائرمنٹ پروٹیکشن ایجنسی ( سیپا ) نے ہمیں چمنی کی اونچائی 120 میٹر رکھنے کو کہا تھا ۔ 660 میگاواٹ کے پاور پلانٹ کو دو یونٹ میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ ہر سال 660 میگاواٹ کے پاور پلانٹ کا اضافہ ہوتا رہے گا اور یہ اضافہ اس وقت تک ہوتا رہے گا ، جب تک 5 ہزار میگاواٹ تک پاور پروڈکشن نہ پہنچ جائے ۔ سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی کے ڈائریکٹر آپریشن اینڈ مانیٹرنگ سید مرتضی حسین رضوی نے بتایا کہ اس وقت پٹرولیم مصنوعات سے بجلی بنائی جا رہی ہے ،
جو بہت مہنگی پڑتی ہے ۔ پاکستان میں اربوں ٹن کوئلہ مدفون ہے مگر اسے نہ نکال کر ملک کو قرضوں کی دلدل میں دھنسنے دیا گیا ۔ تھر کے کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کی صورت میں سالانہ 17 کروڑ ڈالر سے زیادہ کی بچت ہو گی ۔ بجلی کی لاگت 11 سے گھٹ کر 4 روپے فی یونٹ تک آ جائے گی ۔ جب پوچھا گیا کہ عام آدمی کو اس صورت حال کا فائدہ کیسے پہنچے گا تو انہوں نے کہا کہ یہ نیپرا کا مینڈیٹ ہے ۔ ہمارا کام سستی بجلی پیدا کرکے نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی ( این ٹی ڈی سی ) کو فراہم کرنا ہے ۔
ٹیرف طے کرنا ہمارا نہیں ، نیپرا کا کام ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ دوسرے مرحلے میں 1320 میگاواٹ بجلی پیدا کی جائے گی ۔ تب قومی خزانے کی سالانہ بچت 80 کروڑ ڈالر تک ہو جائے گی ۔ تیسرے مرحلے میں 4 ہزار میگاواٹ اور چوتھے مرحلے میں پیداوار 5280 میگاواٹ ہو جائے گی ۔ منصوبے کے لیے چینی ماہرین کی خدمات حاصل کی گئی ہیں ۔ تھرپارکر انرجی کیپٹل بن چکا ہے ۔ تھر میں 175 ارب ٹن کوئلہ موجود ہے ۔ دن رات کام ہو رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ دنیا بھر میں وہی اقوام ترقی کرتی ہیں ، جو سستی بجلی پیدا کرتی ہیں ۔ کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے معاملے میں ماحول کو نقصان سے بچانے کا خاص خیال رکھا گیا ہے ۔ تھر فاؤنڈیشن کے تحت مقامی لوگوں کو روزگار صحت اور تعلیم کے ساتھ ساتھ ہنر سیکھنے کا موقع بھی دیا جا رہا ہے۔ بلاک ٹو کے متاثرین کو 40 لاکھ روپے مالیت کے مکانات تعمیر کرکے دیئے جا رہے ہیں ۔ تھرکول فیلڈ کو 1991 ء میں جیولوجیکل سروے آف پاکستان نے دریافت کیا تھا اور امریکا کی ایجنسی فار انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ نے اسے دنیا میں کوئلے کا چھٹا بڑا ذخیرہ قرار دیا تھا ۔