بدھ‬‮ ، 25 دسمبر‬‮ 2024 

وفاقی وزراء نے عمران خان کے نئے پاکستان کی دھجیاں بکھیرکر رکھ دیں اسد عمر،فواد چوہدری ،پرویز خٹک،شیخ رشید،مراد سعید،شیریں مزاری و دیگر نے خاموشی سے ایسا کام کردیا کہ پڑھ کر آپ بھی اس ’’تبدیلی‘‘ پر حیران رہ جائینگے

datetime 2  اکتوبر‬‮  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)وزیراعظم عمران خان نے انتہائی حد تک اپنے آفس سے جڑے اسٹاف کی تعداد کم کر دی ہے تاکہ کفایت شعاری اور ٹیکس دہندگان کا پیسہ بچانے کے معاملے میں وہ دوسروں کیلئے مثال بن سکیں لیکن، ان کی کابینہ کے کئی وزراء نے قانون میں وضع کردہ تعداد سے زیادہ اسٹاف بھرتی کر لیا ہے۔

اس سلسلے میں متعلقہ قانون ’’فیڈرل منسٹرز اینڈ مسٹرز آف اسٹیٹ (سیلریز، الائونسز اینڈ پریولیجز) ایکٹ 1975ء‘‘ (ترمیم شدہ یکم اکتوبر 2016ء) ہے جس کے مطابق وفاقی وزیر اور وزیر مملکت کو زیادہ سے زیادہ پانچ اسٹاف ممبران رکھنے کی اجازت ہے۔ تاہم، کئی معاملات میں کابینہ کے ارکان اس قانون کی خلاف ورزی کر رہے ہیں اور اپنے اسٹاف میں زیادہ سے زیادہ ارکان بھرتی کرتے جا رہے ہیں۔ روزنامہ جنگ کے سینئر صحافی انصار عباسی کے مطابق ذرائع کا کہنا ہے کہ ان میں سے اکثر وزراء از خود ہی قانون کی خلاف ورزی کر رہے ہیں کیونکہ ماضی کی حکومتوں کے ادوار سے یہ بات رواج بن چکی ہے اور ایک ذریعے نے اس  کو’’پرانا پاکستان‘‘ قرار دیا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کچھ معاملات ماضی میں وزراء وزارت خزانہ سے اثبات میں اشارہ ملنے پر اپنا اسٹاف بڑھا دیتے ہیں لیکن قانون میں ترمیم نہیں کی جاتی۔ مذکورہ بالا قانون کے سیکشن 18؍ میں وفاقی وزیر / وزیر مملکت کیلئے منظور شدہ اسٹاف کی تعداد کی بات کی گئی ہے۔ ’’18. ذاتی اسٹاف – ہر وزیر، اگر وہ رخصت پر نہ ہو تو، ایک پرائیوٹ سیکریٹری، ایک پرسنل اسسٹنٹ، ایک اردو اسٹینو گرافر یا اسٹینو ٹائپسٹ، ایک قاصد اور ایک نائب قاصد کو بھرتی کرنے کا اختیار رکھتا ہے، ان کی حیثیت اور شرائط کا تعین حکومت کی جانب سے وقتاً فوقتاً کیا جا سکتا ہے۔ تاہم، منظور شدہ اسٹاف ممبران کے سوا، کئی وزراء کے پاس اضافی اسٹاف ممبران ہیں جن میں ڈائریکٹر، پروٹوکول افسر، پرسنل اسٹاف افسر، تعلقات عامہ افسر وغیرہ شامل ہیں۔

کابینہ ارکان کے اسٹاف میں اس طرح کے اضافے کی وجہ سے نہ صرف اسٹاف کی منظور شدہ قانونی شق کی خلاف ورزی ہوتی ہے بلکہ نئے عہدوں، جن کی قانوناً حیثیت وضع نہیں ہوتی، کا اضافہ کیا جاتا ہے۔ وزیراعظم کے مشیر برائے میڈیا افتخار درانی نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ وزراء کے ساتھ کام کرنے والے اسٹاف ممبران کا انحصار ان کے کام کے دبائو کے مطابق ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزارت خارجہ، فنانس اور اطلاعات جیسی وزارتوں میں وزیروں کے پاس زیادہ اسٹاف ہے جن میں ڈائریکٹرز، پرسنل اسٹاف افسر وغیرہ شامل ہیں۔

درانی سمجھتے ہیں کہ اس میں کوئی غیر قانونی بات نہیں۔ جب ان سے قانون میں طے شدہ حدود کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ قانون میں وفاقی وزیر یا وزیر مملکت کے ساتھ کام کرنے والے اسٹاف ممبران کی کم از کم تعداد کا بتایا گیا ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ متعلقہ وزارت اپنے وزیر کو اضافی اسٹاف کی پیشکش کرتی ہے اور یہ متعلق وزارت فنانس اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے ساتھ مشاورت کے بعد اضافی عہدہ پیدا کرتی ہے۔ تاہم، درانی نے کہا کہ ڈاکٹر عشرت حسین کے تحت ایک ٹاسک فورس حکومت کی ورک فورس (ملازمین کی تعداد) کو منطقی بنانے کیلئے کام کر رہی ہے۔

’’فیڈرل منسٹرز اینڈ مسٹرز آف اسٹیٹ (سیلریز، الائونسز اینڈ پریولیجز) ایکٹ 1975ء‘‘ میں وفاقی وزیروں اور وزرائے مملکت کی تنخواہوں، الائونسز اور سہولتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ وزیروں کے آفس سے حاصل کی جانے والی معلومات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وزیر خزانہ اسد عمر کے اضافی اسٹاف میں وزیر خزانہ کے پی ایس او سہیل اختر اور اسپیشل اسسٹنٹ قمر سرور عباسی شامل ہیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے اضافی اسٹاف میں ڈائریکٹر برائے وزیر خارجہ سید مصطفیٰ ربانی، پی ایس او سید عظیم شاہ اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر عبدالباری شامل ہیں۔

وزیر دفاع کے اضافی اسٹاف میں پی ایس او میجر کامران اور سینئر پی ایس ایم اسماعیل، وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کے اضافی اسٹاف میں سینئر پی ایس شبیر احمد، پی آر او تیمور خان، اے پی ایس سید شکیل حیدر شامل ہیں۔ وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کے پاس ڈائریکٹر دانیال گیلانی اور تین پروٹوکول افسران عقیل، وجاہت اور نعیم اضافی اسٹاف میں شامل ہیں۔

وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم کے پاس اضافی اسٹاف میں پی ایس او جواد احمد اور اے پی ایس ساجد عزیز قریشی، ریلویز کے وزیر شیخ رشید کے پاس اضافی اسٹاف میں ڈائریکٹر محمد اشفاق، وزیر برائے قومی ہیلتھ سروس عامر کیانی کے پاس اضافی اسٹاف میں ایس پی ایس احمد حسین شاہ اور اے پی ایس وقاص عالم شامل ہیں، وزیر برائے ہائوسنگ اینڈ ورکس طارق بشیر کے پاس اسٹاف افسر اضافی ہے۔

وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی خالد مقبول صدیقی کے پاس پی آر او سدرہ حسین، وزیر برائے میری ٹائم افیئرز علی زیدی کے پاس ڈائریکٹر ایاز میمن، وزیر برائے توانائی اور پاور ڈویژن عمر ایوب خان کے پاس پروٹوکول افسر محمد اسماعیل اور اسسٹنٹ پروٹوکول افسر اشرف قیصر، وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی کے پاس اے پی ایس ظفر اقبال پیرزادہ اور پی ایس او منصور احمد، وزیر برائے ہیومن رائٹس شیرین مزاری کے پاس پی آر او جواد احمد، وزیر برائے مواصلات مراد سعید کے پاس اضافی پی ایس او شاہریز عباس جبکہ وزیر برائے پارلیمانی امور علی ایم خان کے پاس دو سینئر پی ایس محمد عاصم خان اور مشتاق احمد ہیں اور ایک پرائیوٹ پی ایس ضیاء اللہ اضافی اسٹاف میں شامل ہیں۔

موضوعات:



کالم



طفیلی پودے‘ یتیم کیڑے


وہ 965ء میں پیدا ہوا‘ بصرہ علم اور ادب کا گہوارہ…

پاور آف ٹنگ

نیو یارک کی 33 ویں سٹریٹ پر چلتے چلتے مجھے ایک…

فری کوچنگ سنٹر

وہ مجھے باہر تک چھوڑنے آیا اور رخصت کرنے سے پہلے…

ہندوستان کا ایک پھیرا لگوا دیں

شاہ جہاں چوتھا مغل بادشاہ تھا‘ ہندوستان کی تاریخ…

شام میں کیا ہو رہا ہے؟

شام میں بشار الاسد کی حکومت کیوں ختم ہوئی؟ اس…

چھوٹی چھوٹی باتیں

اسلام آباد کے سیکٹر ایف ٹین میں فلیٹس کا ایک ٹاور…

26نومبر کی رات کیا ہوا؟

جنڈولہ ضلع ٹانک کی تحصیل ہے‘ 2007ء میں طالبان نے…

بے چارہ گنڈا پور

علی امین گنڈا پور کے ساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو…

پیلا رنگ

ہم کمرے میں بیس لوگ تھے اور ہم سب حالات کا رونا…

ایک ہی بار

میں اسلام آباد میں ڈی چوک سے تین کلومیٹر کے فاصلے…

شیطان کے ایجنٹ

’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا…