اسلام آباد (نیوز ڈیسک) معروف صحافی اعزاز سید نے اپنے کالم میں لکھا کہ چودہ اگست 2018 کی صبح عمران خان اپنی بنی گالہ کی رہائش گاہ پر دیرینہ دوست زلفی بخاری کے ہمراہ موجود تھے۔ وہ منتخب ہوچکے تھے اور ٹھیک چار روز بعد انہوں نے وزارت عظمی کا حلف اٹھانا تھا۔ یہ پہلا یوم آزادی تھا جو عمران خان اپنی انتخابی فتح کے ساتھ منا رہے تھے۔
اس روز کی دوسری اہم بات یہ تھی کہ ملک کی سب سے بڑی سویلین خفیہ ایجنسی آئی بی کے قائم مقام سربراہ شجاعت اللہ قریشی اپنے ایک جونیئر افسر کے ہمراہ انہیں ملنے آرہے تھے۔ عمران خان پہلی بار کسی آئی بی چیف سے ملاقات کررہے تھے۔ شجاعت اللہ قریشی اپنے اسٹاف آفیسر بلال برکی کے ہمراہ وزیراعظم کے کمرے میں داخل ہوئے تو وزیراعظم نے ان کا خیرمقدم کرتے ہوئے صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود کرسی کھینچ کران کے پاس بیٹھ گئے۔ شجاعت اللہ قریشی گریڈ اکیس کے آئی بی کے سب سے سینئر افسر تھے اور انہیں نگران دور میں تعینات آئی بی چیف احسان غنی کی ریٹائرمنٹ کے بعد وقتی بنیادوں پر آئی بی امور دیکھنے کیلئے صرف ڈیڑھ ہفتہ قبل ہی خفیہ ادارے کا قائم مقام سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔ شجاعت اللہ قریشی نے عمران خان کو آئی بی کی طرف سے انسداد دہشتگردی کے شعبیمیں حاصل کی گئی کامیابیوں پر کم و بیش پندرہ منٹ تک بریفنگ دی اور بتایا کہ عملی طور پر آئی بی اس شعبے میں سب سے آگے پہنچ چکی ہے۔ بریفنگ کے بعد عمران خان بولے کہ، قریشی صاحب یہ بتائیں کہ میرے دھرنے کے دنوں میں نوازشریف دور کے آئی بی چیف آفتاب سلطان نے کس کس صحافی کو پیسے دئیے اور خفیہ فنڈز کہاں کہاں خرچ کیے؟ قریشی بولے آپ وزیراعظم کا منصب سنبھال رہے ہیں اب آئی بی کا سارا ریکارڈ آپ دیکھ سکتے ہیں۔ آئی بی نے کسی صحافی، اینکر یا کسی غیر ضروری جگہ کوئی رقم تقسیم نہیں کی البتہ آئی بی کی استعداد کار میں اضافے کیلئے ایکوئپمنٹ ضرورخریدا گیا ہے۔
عمران خان بولے، میں نے آفتاب سلطان کی تعریف سنی ہے مگرمیں حیران ہوں کہ وہ شریف خاندان کے فاشسٹوں کے ساتھ کیسے رہے۔ یہ وہی عمران خان بول رہے تھے جو دھرنے کے دنوں میں کنٹینر پر کھڑے ہوکر آفتاب سلطان کے خلاف تقریریں کرتے تھے۔ قریشی نے عمران کو بتایا کہ آفتاب سلطان کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ پیپلزپارٹی دور میں یوسف رضا گیلانی اور متحارب مسلم لیگ ن کے دور میں نوازشریف کے آئی بی چیف رہے۔
ایسا کبھی نہیں ہوا۔ ایسا صرف اس لیے ہوا کہ وہ اپنا کام جانتے تھے۔ عمران خان نے بات کا رخ تبدیل کیا اور آئی بی کے قائم مقام سربراہ کو ہدایت کی کہ وہ لوٹے ہوئے اثاثوں کی کرپشن کا کھوج لگائیں۔ ملاقات ختم ہوگئی اور قریشی واپس آ گئے۔اس ملاقات کے بعد عمران خان مرکزی اور صوبائی کابینہ کی تشکیل میں مصروف ہوگئے اورانہوں نے بیرسٹر شہزاد اکبر سے رابطہ کیا تاکہ بیرون ممالک سیاستدانوں کے کاروبارکا کھوج لگا سکیں۔
ٹھیک بیس روز بعد 5 مئی کو ایک بار پھر آئی بی چیف کو وزیراعظم سے ملاقات کیلئے طلب کیا گیا۔ اس بار عمران حلف اٹھا چکے تھے۔ وزیراعظم سیکرٹریٹ اسلام آباد کے چوتھے فلور پر عمران اپنے پرانے بااعتماد دوستوں کے ساتھ موجود تھے۔شجاعت اللہ قریشی کمرے میں داخل ہوئے تو عمران خان نے خیر خیریت پوچھنے کے بعد انہیں کہا کہ،‘‘مجھے صرف ایک ہفتے کے دوران شریف برادران اور زرداری کی کرپشن کیثبوت چاہئیں،
اس کیلئے تمام ذرائع بروئے کار لائیں،’’۔ وزیراعظم کے احکامات کو ان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان نے نوٹ کیا اور قریشی باہر نکل گئے۔ یہ ملاقات صرف دو سے تین منٹ کی ہی تھی۔ عمران کی اگلی ملاقات ایک اور طاقتورادارے کے افسر سے تھی۔دو روز بعد پولیس گروپ کے گریڈ بائیس کے افسر کو آئی بی کا سربراہ مقرر کردیا گیا۔ آئی بی میں تینتیس سال خدمات سرانجام دینے والے گریڈ اکیس کے افسرشجاعت اللہ قریشی نے یہ کہتے ہوئے ریٹائرمنٹ سے قبل چھٹی کی درخواست دیدی کہ وہ اس ادارے کے سربراہ رہ چکے ہیں اب کسی اور پوزیشن پر کام نہیں کرسکتے۔
حیران کن طور پر اگلے چند دنوں میں آئی بی میں تعینات اہم سینئرافسران کو آئی بی سے باہر پوسٹ کردیا گیا۔سچ یہ ہے کہ ملک میں جب بھی کسی منتخب وزیراعظم اور اس کی حکومت کے خلاف کوئی سیاسی گڑبڑ ہوتی ہے تو عام طور پر وزرائیاعظم آئی بی پر ہی اعتماد کرتے ہیں۔ یہ سلسلہ جنرل ضیا الحق کی وفات کے بعد جمہوریت کی بحالی سے لے کر اب تک جاری ہے۔ صرف مشرف دور میں اس معاملے میں تعطل آیا اس کے علاوہ آئی بی ہمیشہ ہی سویلین حکومت کے ساتھ کھڑی رہی کیونکہ وہ وزیراعظم کے ماتحت کام کرتی ہے۔
اس تناظر میں عمران خان نے سال 2014 میں بطور اپوزیشن رہنما جو اقدامات کیے ظاہر ہے وہ آئی بی نے اس وقت کی حکومت کو رپورٹ کیے۔ یہ ان کا فرض تھا کیونکہ آئی بی کو یہ اختیار سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کے پرنسپل سیکرٹری رفیع رضا کے دستخطوں سے جاری ہدایات میں درج ہے۔ یہ وہی رفیع رضا ہیں جن کے دستخطوں سے آئی ایس آئی میں سیاسی سیل قائم کرنے کا ہدایت نامہ بھی جاری ہوا تھا۔میرے خیال میں اگر آج دوبارہ ویسی ہی صورتحال ہوتی ہے تو ڈاکٹر سلیمان کی سربراہی میں آئی بی کو وہی کردار ادا کرنا چاہیے جو آفتاب سلطان نے منتخب حکومت کو بچانے کیلئے ادا کیا تھا۔
لیکن پتہ نہیں اب ایسا کردار ادا کیا بھی جا سکے گا یا نہیں؟میں نے سنا ہے کہ دہشت گردی کے تدارک میں آئی بی کا کردار کم کر کے اسے اینٹی کرپشن پر توجہ دینے کیلئے کہا جا رہا ہے۔ ایسا کرنا مناسب نہ ہوگا۔ اگر اس ادارے نے دہشت گردی کے تدارک میں مثالی کامیابی حاصل کرکے باقی تمام اداروں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے تو اسے تسلیم کرکے آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ امید ہے اس بارے میں ڈاکٹر سلیمان مثبت کردار ادا کریں گے اور اپنے ادارے کیکردار کو تسلیم کروائیں گے۔وزیراعظم عمران خان کے پاس آئی بی کا مکمل اختیار آ چکا ہے۔ ان سے گزارش ہے کہ وہ آئی بی کو جیسے مرضی چلائیں لیکن خدارا ملک پر ایک احسان ضرور کریں وہ یہ کہ آئی بی اور دیگر خفیہ اداروں سے پیسے لینے والے صحافیوں کی فہرستیں ضرورجاری کردیں تاکہ قوم کے سامنے صحافت کے روپ میں زرخرید آلہ کار بے نقاب ہوں۔ اس پر عوام بھی وزیراعظم کے مشکور ہوں گے اور ایماندارصحافی بھی ان کے گن گائیں گے۔ بظاہر اس وقت وزیراعظم کو آئی بی سے اتنی دلچسپی نہیں لیکن جونہی ان کی وزارت عظمیٰ کو کہیں سے خطرہ ہوا انہیں آئی بی کی اہمیت پتہ چل جائے گی اور ایک بار پھر ان کی سوچ میں تبدیلی آ کر رہے گی۔