اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا کہ ہمیں سڑکچرل ریفارمز کی بے حد ضرورت ہے ۔ایک انٹرویو کے دوران انہوں نے کہا کہ میں نے وزیر برائے ریونیو حماد اظہر کو ایک پیغام بھیجا جس میں میں نے انہیں کہا کہ آئندہ دس دنوں کے اندر کرنے والے یہ 5 کام ہیں جو آپ نے کرنے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ پالیسی اور عملدرآمد کو ہم نے الگ الگ کرنا ہے۔
اس حوالے سے پہلے ایک قانون بھی وضع کیا گیا لیکن اس پر عملدرآمد نہیں کیاگیا۔ ایک تو یہ کام کرنا ہے کہ جس نے بھی ٹیکس کا پیسہ اکٹھا کرنا ہے پالیسی اس سے الگ کر دیں۔ پالیسی کوئی اور بنائے اور اس کے لیے ایک باقاعدہ پالیسی بورڈ ہو۔ جو عملدرآمد کا کام ہے اس میں دو بنیادی چیزیں ہیں۔ٹیکس وصول کرنے کا کام ڈنڈے کے زور سے نہیں ہوگا، ہمیں سہولت دے کر عوام سے ٹیکس کے پیسے وصول کرنے ہیں۔ہم نے انفرادی ٹیکس پئیر اور بزنس کے لیے بھی سہولت پیدا کرنی ہے، اس کے لیے ٹیکس کے نظام کے اندر اور ٹیکس جمع کروانے کے لیے ہمیں ایک سہولت دینا ہو گی تاکہ ٹیکس کے حصول میں بھی آسانی ہو۔جہاں تک ہو سکے مشاورت کو بھی عمل میں لانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں تاجر کمیونٹی کو پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ کوئی ایسا سسٹم بناؤ جس میں مارکیٹ کی تین کیٹگریز ہوں جس پر ہم بھی ٹیکس کے لیے ایک فکسڈ رقم متعین کر دیں، تاکہ ہم کم از کم ٹیکس نیٹ کے اندر آنا شروع کریں۔اسد عمر نے کہا کہ ہمارے پاس بہت ڈیٹا موجود ہے، بالفرض آپ 2800 سی سی کی ایک نئی گاڑی خرید رہے ہیں جو تین کروڑ روپے کی ہے، ٹیکس فائلر وہ نہیں ہے، آپ کے پاس اس شخص کا نام آ گیا ہے ، اب اس نام کے خلاف کارروائی کرنے سے کسی کو کوئی نہیں روک سکتا۔ آئندہ 10 روز میں کیے جانے والے پانچ کاموں میں سے یہ بھی ایک کام ہے۔ لوگ 2،3 وجوہات کی بنا پر ٹیکس نہیں دیتے، ایک وجہ یہ ہے کہ نظام بہت مشکل ہے جسے ہم نے آسان بنانا ہے۔
دوسری یہ وجہ ہے کہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم ٹیکس کیوں دیں؟ ہمارے ٹیکس کے پیسے چوری کر کے پارک لین اپارٹمنٹس بن جاتے ہیں اور ہمیں عوام کو یہ دکھانا ہے کہ نئی حکومت صداقت اور امانت کے تمام تقاضے پورے کر رہی ہے۔تیسری وجہ یہ ہوتی ہے کہ حکومتی نمائندوں کی اپنی شاہ خرچیاں ختم نہیں ہوتیں تو ہم ٹیکس کیوں دیں؟ تو اب سب نے دیکھا ہے کہ وزیراعظم عمران خان سے شروع ہو کر تمام حکومتی نمائندے عوام کے ٹیکس کے پیسوں کی حفاظت کر رہے ہیں اور ہمارا عزم ہے کہ یہ قوم کا پیسہ ہے اور اسے ہم نے ضائع نہیں کرنا۔
دریں اثناایک غیر ملکی خبررساں ادارے کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں وزیر خزانہ اسد عمر نے کہاکہ پاکستان کو ایسی کسی ایمرجنسی کا سامنا نہیں کہ اسے بیل آؤٹ پیکیج کے لیے آئی ایم ایف کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑے۔ان کا کہنا تھا کہ ہم نے درآمدات نہیں روکیں اور نہ ہی مالیاتی پابندیاں لگائی ہیں۔ تاہم وزیر خزانہ نے اس بات پر زور دیا کہ ہمیں بہتر فیصلے کرنے کی ضرورت ہے اور جلدبازی یا ایمرجنسی میں فیصلے نہیں کرنے چاہئیں۔27
ستمبر کو آئی ایم ایف اسٹاف مشن کے شیڈول دورہ پاکستان کے حوالے سے اسد عمر نے کہا کہ ہم ان کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں، لیکن یہ بات چیت قرض کے لیے نہیں ہے، ہمارا مقصد یہ ہے کہ اگر کسی مرحلے پر ہم ان سے رابطہ کریں تو اس سے پہلے ہم اپنا ہوم ورک کرلیں۔انٹرویو کے دوران وزیراعظم عمران خان کے حالیہ دورہ سعودی عرب کے حوالے سے بات کرتے ہوئے اسد عمر نے کہا کہ اس دورے کا مقصد معاہدوں کو اعلی سطح پر طے کرنا اور باہمی تعلقات کو مضبوط کرنا تھا۔
وزیر خزانہ کے مطابق وزیراعظم کے دورے کے دوران سعودی عرب سے تجارتی امور اور براہ راست بیرونی سرمایہ کاری پر بات کی گئی جبکہ ویزا فیس اور پاکستانی مزدوروں کو درپیش دیگر مسائل بھی زیرِ غور آئے۔اسد عمر کا مزید کہنا تھا کہ حکومت اوورسیز پاکستانیوں کے لیے اکتوبر میں ڈالر سیونگ سرٹیفکیٹ کے اجرا پر غور کر رہی ہے۔انٹرویو کے دوران وزیر خزانہ نے بتایا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے وفود میں ملاقات اکتوبر کے پہلے ہفتے میں ہوگی، جس کے دوران پاک چین اقتصادی راہداری(سی پیک)منصوبے میں سعودی عرب کی سرمایہ کاری کا حجم اور شعبوں کا تعین طے کرلیا جائے گا۔اسد عمر نے ان رپورٹس کی بھی تردید کردی کہ سعودی عرب پاکستان میں 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا، ان کا کہنا تھا، سعودی سرمایہ کاری کے حجم کا ابھی تعین نہیں کیا گیا۔