اسلام آباد (نیوز ڈیسک) معروف کالم نگار ارشاد بھٹی اپنے کالم ’’چور دروازے!‘‘ میں لکھتے ہیں کہ افیمی،چرسی،جیب کترا ہاتھ لگ جائے،تھانوں،کچہریوں میں رُل رُ ل مرجائے، چُنا مُنا چور ہتھے چڑھ جائے،لوگ ہی مار مار بھرکس نکال دیں، غریب شبے میں پکڑا جائے، اسکی پوری نسل کی خیر نہیں، لیکن معاملہ بڑوں کا ہو، اربوں،کھربوں کا ڈاکہ ہو یا کوہ ہمالیہ سے بڑی نالائقی، ادارے بے بس، قانون بے کس، ہماری مامتا جاگ جائے،
کوئی نہ کوئی چور دروازہ کھول کر ہی دم لیں۔بتایا،سمجھایا یہ جارہا کہ سزا مفروضوں پر سنائی گئی تھی،سپریم کورٹ سے احتساب عدالت، مطلب شروع سے آخر تک سب کچھ انتقامی کاروائی، مقصد نواز شریف کو پھنسانا، عمران خان کو الیکشن جتوانا،کوئی یہ نہیں بتا رہا کہ تین بار کے وزیراعظم کے بچوں کی وہ آف شور کمپنیاں،جائیدادیں کہاں سے نکل آئیں،جو کسی کاغذ میں ڈیکلیئر تھیں نہ کسی ادارے کے علم میں،کسی کو کوئی غرض نہیں کہ وزیراعظم نے قومی اسمبلی میں ’’جناب اسپیکر یہ ہیں وہ ذرائع‘‘والی غلط بیانی کیوں کی، بیٹی نے ’’میری بیرون ملک کیا،اندرونِ ملک بھی کوئی جائداد نہیں‘‘ جیسا چٹا جھوٹ کیوں بولا، باپ نے 3 متضاد تقریریں کیوں ٹھوک دیں،بچوں نے مختلف قسم کے انٹرویو کیوں دیدیئے،قطری خط کے علاوہ سوا دو سالوں میں ایک ثبوت یا گواہ کیوں پیش نہ کیا جا سکا اور احتساب عدالت میں میاں صاحب اپنے کہے سے ہی کیوں مکر گئے،کسی کو کوئی پرواہ نہیں کہ برطانوی اخبار نے ہمارے وزیراعظم کو’’پینٹ ہاؤس بحری قذاق‘‘کیوں کہا، 21جائیدادیں اور کہاں سے نکل آئیں،ایون فلیڈ اپارٹمنٹس کرائے پر لئے،خریدے یا قطریوں کے، ایک کاغذ بھی کیوں نہیں،حسن،حسین تواپنے گواہ، انہیں پیش کرنے کی بجائے پتلی گلی سے کیوں نکال دیا گیا، 30مہینوں میں 3سوالوں کے جواب کیوں نہ دیئے جا سکے، سات تہوں میں چھپی سازشیں نکال لانیوالے کیوں ایک سیدھی سادھی ’’منی ٹریل‘‘ نہ دے سکے،
سب یہ کہہ رہے کہ احتساب عدالت کا فیصلہ کمزور تھا، نیب نے بلنڈرز مارے، پراسیکیوشن کمزور تھی،کوئی یہ نہیں کہہ رہا کہ میاں صاحب یہ بتانے ’’پیسہ کمایا کہاں سے،لندن بھیجا کیسے،فلیٹس خریدے کیسے‘‘ کی بجائے کیوں کبھی اسٹیبلشمنٹ کے ظلم وستم کے قصے سناتے ملے، جوڈیشنری کی انتقام بھری فلمیں چلاتے نظر آئے، سویلین بالادستی کے دُکھڑے، پارلیمنٹ کی بے بسی کے نوحے اور جمہوریت کی یتیمی کے مرثیے سناتے رہے،
اصل بات بتائی نہیں بس مفروضے،کہانیاں،سازشیں،سیاستیں ہوتی رہیں،اوپر سے پروپیگنڈہ، وہ بھی ایسا منظم کہ خدا کی پناہ،وہ گھر سے نکلے، گاڑی میں بیٹھے،چل پڑے،جہاز میں داخل ہوئے،جہاز ہوا میں،پاکستانی فضا میں،لینڈ کر گئے،اُٹھے،چلے، باہر نکلے،وہ دوسرے جہاز میں بیٹھا دیئے گئے،جیل پہنچا دیئے گئے، ارے بستر ہی نہیں، چادر میلی، باتھ روم گندا، ائیرکنڈیشنر ہے ہی نہیں،قیمہ باسی اور نجانے کیا کیا، مظلومیت کے ایسے بھجن گائے گئے کہ ہر ادارے کو لینے کے دینے پڑے اورA سے Z تک سب کے پسینے چھوٹ گئے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ ہی لے لیں،کہا جارہا انصاف کا بول بولا ہوا،حق آیا،باطل مٹ گیا، سبحان اللہ جی، کل با بارحمتا برا،آج اچھا، میٹھا میٹھا ہپ ہپ،کڑوا کڑوا تھُوتھُو، ابھی کل ہی تو میاں صاحب فرمارہے تھے کہ ’’یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ پانچ جج کروڑوں ووٹ لینے والے عوامی نمائندوں کی قسمتوں کا فیصلہ کریں،ہم کوئی بھیڑ بکریاں ہیں جوان کی مانیں، ہم نہیں مانیں گے‘‘، کل ہی تو میاں صاحب کہہ رہے تھے’’ججز تو بغض وعناد سے بھرے بیٹھے،غصہ ان کے الفاظ میں، میں کہتا ہوں فیصلہ واپس لو‘‘،
ابھی کل ہی تو میاں صاحب بتارہے تھے کہ’’5رکنی بنچ کا فیصلہ سیاہ حروف سے لکھا جائیگا‘‘،ابھی کل ہی تو میاں صاحب نے جوڈیشنری کی متبادل عوامی عدالتیں لگائی ہوئی تھیں، دانیال،طلال کو بری کروا رہے تھے، سپریم کورٹ کو پی سی اوبتوں سے پاک کرنیکی خوش خبریاں سنائی جار ہی تھیں اور ابھی کل ہی تو سعد رفیق پچھتا رہے تھے کہ’’عدلیہ کی آزادی کی تحریک چلانا ہماری غلطی،ہمیں زرداری صاحب کی باتیں مان لینی چاہئے تھیں، میں نے تو میاں صاحب سے کہا تھا کہ ایک بار سوچ لیں‘‘
گجنی یاداشتوں والے یہ بھلا بیٹھے کہ عدلیہ نے تو ہمیشہ ریلیف دیا،بے نظیر بھٹو حکومت برطرف ہوئی،وہ سپریم کورٹ گئیں،ریلیف نہ ملا،غلام اسحق خان نے میاں صاحب کی حکومت برطرف کی،میاں صاحب سپریم کورٹ گئے،ریلیف مل گیا، میاں صاحب نے 9سالہ جلا وطنی کے بعد آکر سپریم کورٹ میں ایک درخواست ڈالی، طیارہ سازش کیس سزا ختم، دہشت گردی کے مقدمے ختم،جرمانے معاف، یہاں ریلیف نہ ملتا تو تیسری بار وزیراعظم کیا، عمر مقدمے بازی میں ہی گزرجاتی،پھر میاں صاحب وزیراعظم گیلانی کے خلاف سپریم کورٹ گئے،
گیلانی صاحب فارغ، میاں صاحب کے سر پر لٹکتی تلوار حدیبیہ سپریم کورٹ نے closeکی، خواجہ آصف کی نااہلی ختم ہوئی، خواجہ سعد رفیق ایک عدالتی اسٹے آرڈر پر 5سال وزارت کے مزے لوٹ کر چلتے بنے اورپھرسپریم کورٹ پر حملہ کر کے بچ جانے سے سزائیں معطل ہو جانے تک، کب ریلیف نہ ملا،پھر بھی شکوے،شکائتیں، سازشی تھیوریاں،کمال ہے بھائی کمال 133 باقی جہاں تک فیصلے کی بات،یہ عدالتی فیصلہ،ہمیں قبول،لیکن ہر معاملے میں بال کی کھال ادھیڑنے اورہر مسئلے کی تہہ تک پہنچ کر سانس لینے والے اول تا آخررپورٹر رؤف کلاسرا کی ان باتوں میں وزن کہ ایک تو یہ نیب کا نہیں جج بشیر صاحب کے فیصلے کا ٹرائل تھا،
دوسرا جس دن حدیبیہ closeہوا،اسی دن ایون فلیڈ ریفرنس آدھا کیس ہی ختم ہوا کیونکہ حدیبیہ وہ کیس جو سب کیسوں میں مضبوط،جس میں رحمان ملک، اسحق ڈار کے اعترافی بیانات،شریف خاندان سمیت 43لوگ ملوث، شواہد بھری جے آئی ٹی رپورٹ اور منی لانڈرنگ کی پوری کہانی کہ کیسے قاضی خاندان کے ناموں پر اکاؤنٹس کھلے، کس طرح پیسہ پاکستان سے باہر گیا،بقول دوست رؤف کلاسرا یہ بھی سمجھ سے باہر کہ نیب نے کیوں نواز شریف،مریم،کیپٹن صفدر کو نہ بلایا، کچھ نہ پوچھا، تفتیش نہ کی، کیوں اپنے شواہد،تحقیق کی بجائے جے آئی ٹی رپورٹ پر انحصار کر لیا، پھر یہ وائٹ کالر کرائم، مگر اسلام آباد ہائیکورٹ میں کیس ایسے چلا جیسے یہ مرڈرٹرائل،
کسے نہیں معلوم کہ نیب قانون کہے جب کوئی مان جائے کہ جائیداد میری تو پھر منی ٹریل اس کی ذمہ داری، اب نیب سے تو بار بار کہا گیا مفروضوں پر سزا دی،ثبو ت لاو، خواجہ حارث سے یہ بھی نہ پوچھا گیا کہ جب میاں صاحب، بچے مان چکے کہ فلیٹس ہمارے، توثبوت دینے میں کیا حرج، یہاں اعتزاز احسن کی حدیبیہ کیس بند ہونے کے حوالے سے یہ بات بھی ٹھیک کہ ’’کرائم کبھی بھی ٹائم بارڈنہیں ہوتا‘‘ لیکن یہ اک حقیقت کہ احتساب عدالت کے اس فیصلے’’کرپشن نہیں ہوئی‘‘ کے خلاف نیب کا اپیل نہ کرنا، باپ کے ہوتے ہوئے دادا کو گارڈین بنانے پر اعتراض نہ کرنا، عد التی سوالوں پر آئیں بائیں شائیں‘‘کرنا، جے آئی ٹی نکات کو قانونی دلائل میں نہ ڈھال سکنا اور میاں صاحب،مریم اور کیپٹن صفدر سے انوسٹی گیشن نہ کرنا سمیت بہت کچھ ایسا جو نیب نے نہ کیا،
جو اسے کرنا چاہئے تھا،لیکن ان تمام باتوں کے باوجود ابھی تک دل نہیں مان رہا کہ یہ جج صاحبان نے کہا’’ذرائع سے زیادہ آمدن پر سزا کیسے ہو سکتی ہے اور اگر مریم نواز کی ٹرسٹ ڈیڈ جعلی ثابت ہوگئی تو کیا فرق پڑتا ہے‘‘، مطلب پھر تو جسکے پاس جتنا مال،سب حلال،پھر تو جعلی چیک سے ہر جعلی کاغذی کارروائی تک، سب کچھ جائز۔ حدیث نبوی ؐ یاد آرہی ’’پچھلی امتیں اس لئے برباد ہوئیں کہ وہ اپنے کمزوروں کو سزا دیتیں اور طاقتوروں کو معاف کر دیا کرتیں‘‘بلا شبہ قانون وشواہد کی باریک بینیاں،فل اسٹاپ،کامے اپنی جگہ، مگر جب طاقتور چھوٹ جائے تو معاشرہ پست،پسماندہ ہو جائے،مایوسی پھیلے، کیونکہ سماج کے پھلنے پھولنے کا انحصار عدل پر، لیکن یہاں رونا،دھونا کیا،
یہاں میرٹ،اخلاقیات، احتساب نہ پہلے ہماری ترجیح اور نہ ان کی آج ہمیں کوئی پروا،یہاں تو دن دیہاڑے ریکارڈ جل رہے، ریکارڈ غائب ہورہے، ایان علی سے ڈاکٹر عاصم تک سب کو ریلیف مل رہا، یہاں تو ذوالفقار مرزے قرآن اٹھا اٹھا کر تھک جائیں، صولت مرزے بول بول کر پھانسی چڑ جائیں اور بلدیہ فیکٹری سے سانحہ ماڈل ٹاؤن تک قیامتیں آجائیں مگر کسی کے کان پر جوں بھی نہ رینگے،باقی چھوڑیں یہاں نواز شریف یہ بھی کہہ دیں کہ ’’میرے اثاثے ذرائع آمدنی سے زیادہ تو تمہیں اس سے کیا‘‘ اور زرداری صاحب یہ بھی فرما دیں کہ’’جاؤ میں اپنے اثاثے نہیں بتاتا،جو کرنا ہے کرلو‘‘پھر بھی کوئی کچھ نہ کر سکے،تبھی تو کہہ رہا کہ یہاں افیمی،چرسی،جیب کترا ہاتھ لگ جائے،تھانوں،کچہریوں میں رُل رُ ل مرجائے، چُنا مُنا چور ہتھے چڑھ جائے،لوگ ہی مار مار بھرکس نکال دیں، غریب شبے میں ہی پکڑا جائے، اس کی پوری نسل کی خیر نہیں، لیکن معاملہ بڑوں کا ہو، اربوں،کھربوں کا ڈاکہ ہویا کوہ ہمالیہ سے بڑی نالائقی، ادارے بے بس، قانون بے کس،ہماری مامتا جاگ جائے، کوئی نہ کوئی چور دروازہ کھول کرہی دم لیں۔