اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)تحریک انصاف کی نئی حکومت نے منی بجٹ پیش کرنے کی تیاریاں شروع کر دیں، پھلوں، موبائل فونز، گاڑیوں،پنیر اور مہنگی اشیا کی درآمد بند کرنے پر غور، سگریٹ اور منقولہ جائیداد پر ٹیکس بڑھانے کی تجویز۔ روزنامہ جنگ کی رپورٹ کے مطابق تحریک انصاف کی حکومت منی بجٹ پیش کرکے رواں مالی سال کے میکرو اکنامک اور بجٹ اہداف کا
ازسر نو تعین کرنا چاہتی ہے تاکہ جاری کھاتوں اور بجٹ کے خسارے پر قابو پایا جاسکے۔ حکومت اس بات پر بھی غور کر رہی ہے کہ نواز لیگ کی حکومت میں اضافی آمدنی والے افراد کیلئے متعارف کرائی گئی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم جزوی طور پر واپس لی جائے۔ اس اقدام سے امیر اور متمول طبقے پر بوجھ میں اضافہ ہوگا۔ اس کے ساتھ حکومت غیر منقولہ اثاثوں پر ویلتھ ٹیکس عائد کرنے، کسٹمز ڈیوٹی اور 6؍ ہزار سے زائد اشیاء پر ریگولیٹری ڈیوٹی میں اضافے پر بھی غور کر رہی ہے۔ اخراجات کی مد میں حکومت پبلک سیکٹر ڈولپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کو 1030؍ ارب روپے سے کم کر کے 600؍ یا 700؍ ارب روپے تک کی سطح پر لانے پر بھی غور کر رہی ہے جس کے تحت 400؍ سے 500؍ ارب روپے کے غیر منظور شدہ منصوبے پی ایس ڈی پی کی فہرست سے خارج کر دیے جائیں گے۔ اس کے علاوہ ایسے غیر ضروری منصوبے، جن پر اخراجات 20؍ فیصد سے کم ہیں، کو بھی پروگرام سے ختم کیا جاسکتا ہے۔ رواں مالی سال کے میکرو اکنامک اور بجٹ کے اہداف کا ازسر نو تعین کے حوالے سے جی ڈی پی کا ہدف 6.2؍ فیصد سے کم کرکے 5.5؍ فیصد تک لایا جائے گا جبکہ کنزیومر پرائس انڈیکس کی بنیاد پر طے کیا گیا مہنگائی کا ہدف 6؍ فیصد سے بڑھا کر 7؍ یا 8؍ فیصد تک مقرر کیا جائے گا۔ وزارت خزانہ کے ایک اعلی افسر نے دی نیوز سے بات چیت
کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی اور بتایا کہ بجٹ 2018-19ء کیلئے مقرر کردہ تمام تر اہداف حاصل نہ کیے جاسکے کیونکہ ایف بی آر بڑے مارجن سے اپنا ہدف حاصل نہیں کر پایا۔ حکومت کا تخمینہ تھا کہ ایف بی آر 3935؍ ارب روپے تک کے ٹیکسز جمع کرلے گی لیکن 30؍ جون 2018ء تک ادارہ صرف 3842؍ ارب روپے جمع کر سکا۔ اب موجودہ صورتحال میں جب اب یف بی آر
کی خواہش کے مطابق طے کردہ 4435؍ ارب روپے ٹیکس جمع کرنے کا ہدف ناقابل حصول نظر آتا ہے، حکومت ٹیکس اکھٹا کرنے کے ہدف کا بھی ازسر نو تعین کرنے پر غور کررہی ہے۔ بجٹ خسارے کا ہدف پانے میں بھی برے طریقے سے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا کیونکہ بجٹ خسارہ 5.5؍ فیصد کے مقرر کردہ ہدف سے بڑھ کر 6.6؍ فیصد تک جا پہنچا۔ موجودہ صورتحال میں 4.9؍ فیصد کا
مقرر کردہ نیا بجٹ خسارے کا ہدف غیر حقیقی ہو کر رہ گیا ہے۔ اس لئے حکومت کو بجٹ خسارے کے ہدف میں اضافہ کر کے 5.3؍ فیصد سے 5.5؍ فیصد تک مقرر کرنا پڑے گا۔ اخراجات کے حوالے سے صورتحال خاصی تنگ رہی کیونکہ قرضوں کی ادائیگی اور دفاعی اخراجات مقرر کئے جا چکے تھے اور ان میں بڑے پیمانے پر کمی کی کوئی صورت نہ تھی۔ لہذا سہل صورت یہی باقی
بچی کہ پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام میں کمی کی جائے۔ ن لیگ کی گزشتہ حکومت نے پبلک پرائیورٹ پارٹنرشپ کی مد میں 100؍ ارب روپے مختص کیے تھے جبکہ 100؍ ارب روپے آئندہ حکومت کے صوابدیدی اخراجات کیلئے مختص کیے تھے، تاہم وزارت خزانہ کی جانب سے شائع کردہ پنک بک میں ان دونوں فنڈز کا کوئی ذکر نہیں بلکہ صرف 2018-19ء کے بجٹ میں ترقیاتی پروگرام کی
مد میں 800؍ ارب روپے کا ذکر ہے۔ پلاننگ کمیشن کے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام اور وزارت خزانہ کی پنک بک میں فرق سے پتہ چلتا ہے کہ پبلک سیکٹر ڈولپمنٹ پروگرام 1030؍ ارب روپے کے مقابلے میں 800؍ ارب روپے تک محدود کر دیا گیا تھا۔ جاری کھاتوں میں خسارے کا ہدف حاصل کرنے میں بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ گزشتہ مالی سال میں یہ 18؍ ارب ڈالرز تک پہنچ گیا تھا
جبکہ غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر میں بھی کمی ہوئی۔ موجودہ صورتحال میں بھی جاری کھاتوں کے خسارے کا تخمینہ 18؍ ارب ڈالرز لگایا گیا ہے تاہم یہ دیکھنا باقی ہے کہ اس امر کا تجزیہ کرنا باقی ہے کہ 1.5؍ ارب ڈالرز کی تجارتی سرمایہ کاری اس میں اضافہ کرکے اسے 19.5؍ ارب ڈالرز تک تو نہیں پہنچا دے گی! کسٹمز ڈیوٹی میں ایک فیصد اضافے اور 6000؍ سے زائد اشیا پر
ریگولیٹری ڈیوٹی میں اضافے سے درآمدی بل میں کمی واقع ہوگی۔ تاہم ایف بھی آر ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت کو اسمگلنگ کی روک تھام کیلئے موثر اقدامات، چین سمیت دیگر ممالک سے آزادانہ تجارتی معاہدے پر از سر نو غور اور سرحدوں پر تعینات فورسز کیلئے احتساب جیسے اقدامات کرنا ہوں گے تاکہ درآمدی بل کو یقینی طور پر کم کیا جاسکے۔ محض مالی اقدامات تجاری خسارے کو کم نہیں کرسکیں گے لہذا مطلوبہ نتائج کے حصول کیلئے متعدد اقدامات یکساں طور پر کرنا ہونگے۔