لاہور(آئی این پی) چیئرمین نادراعثمان یوسف مبین نے عام انتخابات میں آر ٹی ایس سسٹم’’ کریش ‘‘نہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب ضمنی انتخابات میں اس سسٹم کو استعمال کیا جارہا ہے یا نہیں اس بارے مجھے ابھی کوئی علم نہیں ‘یو این ایچ سی آر پروگرا م کے تحت افغانستان واپس جانے پر رقم حاصل کرنے کیلئے کئی پاکستانیوں نے خودکوافغان شہری ظاہرکیا اورواپسی پر ان کے شناختی کارڈ بلاک ہو چکے ہیں‘
جن پختونوں کو شناختی کارڈ کے حوالے سے مشکلات درپیش ہیں اس کے پیچھے کئی ٹھوس وجوہات ہیں لیکن اس کا حل نکالیں گے ‘کسی کے ساتھ لسانی بنیادوں پر امتیازی سلوک نہیں کیا جارہا ‘اوور سیز پاکستانیوں کیلئے سسٹم بھی نادرانے تیار کیا ہے ،رجسٹریشن کا عمل شروع کر دیا ہے اور عدالتی حکم کے مطابق اورسیز پاکستان ضمنی انتخابات میں اپنا ووٹ کاسٹ کر سکیں گے ۔ وزیر اعظم عمران خان کے نوٹس لینے پر قومی دستاویزات کے حصول میں مشکلات کا سامنا کرنے والے پختونوں کے نمائندہ وفد سے نادرا کے ہیڈ کوارٹر جوہر ٹاؤن میں ملاقات کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین نادرانے کہا کہ پختون وفد سے ملاقات کر کے ان کے مسائل سنے ہیں۔ شناختی کارڈ بلاک کرنے کے معاملے پر ایک پارلیمانی کمیٹی بنی تھی جس کی سفارشات پر اس معاملے کو آگے بڑھایا گیا لاہور میں تقریباً1300ایسے کیسز ہیں جنہیں شناختی کارڈ بلاک ہونے ، شناختی کارڈیا ’’ ب فارم ‘‘نہ بننے کی شکایات ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ایسے بہت سے کیسز ہیں جن میں افغان پاسپورٹ ریکارڈ پر موجود ہے اور ہمارے پاس اس کے علاوہ بھی اور بہت سے ثبوت ہیں، شناختی کارڈ کے حوالے سے درپیش مشکلات کے پیچھے کئی ٹھوس وجوہات ہیں ،بہت سے کیسز ایسے ہیں جب کوئی افغان شہری پاکستان کے قومی شناختی کارڈ کے حصول کیلئے آتا ہے تو فیملی ممبر کے طور وہ پختون فیملی میں سے کسی ایک کو بھائی یا بہن ظاہر کر دیتا ہے
جس کا اس کی باقی فیملی کو معلوم نہیں ہوتا اورحقائق سامنے آنے پر پوری فیملی کے شناختی کارڈ بلاک ہو جاتے ہیں ۔بعض کیسزا یسے بھی ہیں جس میں کئی پاکستانیوں نے افغانیوں کو واپس جانے پر ملنے والی رقم حاصل کرنے کیلئے خود کو افغانی شہری ظاہر کیا لیکن جب وہ واپس آئے تو ان کے شناختی کارڈ بلاک ہو گئیلیکن ہم نے اس سارے معاملات کے باوجودمسائل کے حل کی طرف جانا ہے ۔ افغانیوں کا مسئلہ 40سال سے ہے اور چار دہائیوں سے درپیش مسئلہ ایک دن میں حل نہیں ہوتا ۔ ہم بڑے عرصے سے اس کیلئے محنت کر رہے ہیں او رحل کی طرف جارہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ کسی کے ساتھ لسانی بنیادوں پر امتیازی سلوک نہیں کیا جارہا بلکہ شناختی کارڈ ایک میکنزم کے تحت بلاک ہوتے ہیں ۔پورے پاکستان میں ایسے ایک لاکھ 55ہزار کیسز موجود ہیں لیکن ہم نے انہیں حل کرنا ہے اور ا سکے لئے کوششیں جاری ہیں۔ ہم وزارت داخلہ سے متعلقہ معاملات وزارت داخلہ کو بھجوا رہے ہیں ۔ جن لوگوں کے پاس شناختی کارڈ نہیں اس کا حل نکالیں گے۔