اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)عام انتخابات میں کامیابی کے بعد تحریک انصاف وفاق، پنجاب ، خیبرپختونخواہ میں اکثریتی جماعت کے طور پر سامنے آئی ہے جبکہ سندھ اور بلوچستان میں بھی اس کی کارکردگی گزشتہ الیکشن کے مقابلے میں بہترین رہی ہے۔ انتخابات میں کامیابی کے بعد تحریک انصاف وفاق اور پنجاب میں حکومت سازی کیلئے مشاورت اور تجاویز پر غور کے عمل سے گزر رہی ہے
اور وزرائے اعلیٰ اور کابینہ کے نام بھی عمران خان کے سامنے زیر غور ہیں۔ ایسے میں پنجاب کی وزارت اعلیٰ کیلئے فواد چوہدری، ڈاکٹر یاسمین راشد اور سب سے مضبوط امیدوار علیم خان کا نام بھی میڈیا کی زینت بن چکا ہے تاہم اب معروف صحافی انصار عباسی نے انکشاف کیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ علیم خان کو وزیر اعلیٰ پنجاب کے طور پر دیکھنے کی متمنی نہیں اور یہی وجہ ہے کہ نیب اور سی ڈی اے نے علیم خان کے خلاف کیسز کو دوبارہ منظر کا حصہ بنا دیا ہے۔ انصار عباسی اپنی آج کی شائع رپورٹ میں لکھتے ہیں کہ چاہے اسے تقدیر کا لکھا سمجھیں یا نیب اور سی ڈی اے کی جانب سے جان بوجھ کر علیم خان کے وزیراعلیٰ پنجاب بننے کی کوشش کو ناکام کرنا، لیکن پی ٹی آئی لیڈر کو دو سرکاری اداروں کی جانب سے اس وقت مشکلات کا شکار کیا گیا جب انہیں صوبے کے اعلیٰ عہدے کیلئے اہم امیدوار سمجھا جا رہا تھا۔ جس بات سے شک پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ سینئر نیب افسر نے ذاتی طور پر مختلف صحافیوں کو چند روز قبل بتایا کہ علیم خان لندن میں اپنے فلیٹس اور دبئی میں جائیداد کی خریداری کے حوالے سے وسائل کا جواز پیش کرنے میں ناکام رہے۔ صحافیوں کو یہ بھی بتایا گیا کہ علیم خان کیخلاف نیب کے پاس وسائل سے زیادہ اثاثوں کا ٹھوس کیس موجود ہے۔ عمومی طور پر ایک سادہ سے سوال کیلئے بھی صحافیوں کیلئے نیب کے باضابطہ ترجمان سے رابطہ کرنا مشکل ہوتا ہے
لیکن اس کیس میں لاہور میں بیورو کے سینئر عہدیدار نے خود ہی صحافیوں کو بتایا کہ ممکن ہے کہ علیم خان کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ عجیب اتفاق ہے کہ کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) نے بھی مختلف ہائوسنگ ڈویلپرز بشمول علیم خان اور ان کی کمپنی کو نوٹس جاری کیے ہیں اور انہیں کہا گیا ہے کہ وہ ادارے میں پیش ہوں یا پھر فوجداری کارروائی کیلئے تیار رہیں۔
اگرچہ علیم خان سے نیب میں پہلے بھی پوچھ گچھ ہو رہی تھی لیکن اس مرتبہ جب پی ٹی آئی وزیراعلیٰ پنجاب کے عہدے کیلئے اپنے امیدواروں کے نام فائنل کر رہی تھی اس وقت نیب کی جانب سے توڑ مروڑ کر ایک خبر ’’لیک‘‘ کی گئی جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ علیم خان کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ نیب ذرائع سے اس طرح کا پیغام ملنے پر میڈیا میں شہ سرخیاں شائع ہوئیں
لیکن اس کا واضح مقصد علیم خان کو وزیراعلیٰ پنجاب بنانے کی کوشش کو ناکام بنانا ہو سکتا ہے۔ تاہم، نیب نے متعدد مرتبہ یہ بات دہرائی ہے کہ اس کا کوئی سیاسی مقصد نہیں اور ادارہ قانون اور میرٹ کی بنیاد پر اپنا کام کر رہا ہے۔ جیسا کہ اکثر معاملات میں ہوتا ہے، نیب کے ترجمان سے اس نمائندے نے جمعرات کو رابطہ کیا لیکن انہوں نے فون نہیں اٹھایا۔ نیب کے دعوے،
کہ اس کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں، کے برعکس ادارے کی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے جہاں ادارے کو حکمرانوں کے سیاسی فوائد کے حصول کیلئے یا مختلف اوقات پر استعمال کیا گیا۔ 2002ء کے انتخابات سے قبل اور اس کے بعد، نیب کو حکمران جماعت مسلم لیگ ق تشکیل دینے اور پیپلز پارٹی میں فارورڈ بلاک بنانے کیلئے بھرپور انداز سے استعمال کیا گیا تھا تاکہ اس وقت کے
آمر حکمران کیلئے پسند کی کی حکومت تشکیل دی جا سکے۔ اگرچہ علیم خان کی ساکھ متنازع ہے لیکن اس کے باوجود وہ وزیراعلیٰ پنجاب کے عہدے کیلئے مضبوط امیدوار تھے۔ لیکن خیال کیا جاتا ہے کہ نیب کی حالیہ کارروائی کی وجہ سے ان کا پورا کام بگڑ گیا ہے۔ اگر اس کام میں نیب ہی علیم خان کے موقع کو نقصان پہنچانے کیلئے کافی نہیں تھا تو یہاں سی ڈی اے بھی ایکشن میں آیا
اور جمعرات کو علیم خان سمیت مختلف ہائوسنگ ڈویلپمنٹس کے آپریٹرز کو نوٹسز جاری کر دیے۔ ایک اخبار کی رپورٹ کے مطابق، یہ نوٹس مختلف خلاف ورزیوں پر جاری کیے گئے اور ان افراد سے کہا گیا کہ 8؍ اگست کو پیش ہو کر وضاحت پیش کریں بصورت دیگر ادارہ ان کیخلاف فوجداری کارروائی شروع کرے گا۔ علیم خان کو جاری کردہ نوٹس میں کہا گیا ہے کہ بلڈنگ کنٹرول فیلڈ اسٹاف
کی سائٹ رپورٹ اور دستیاب ریکارڈ کی بنیاد پر سی ڈی اے علیم خان کیخلاف فوجداری کارروائی کا آغاز کر سکتا ہے کیونکہ انہوں نے ادارے کے بلڈنگ کنٹرول ڈائریکٹوریٹ کی اجازت کے بغیر ہی ہائوسنگ ڈویلپمنٹ میں تعمیرات کی اجازت دی۔ نوٹس میں کہا گیا ہے کہ پارک ویو ہائوسنگ اسکیم کے لے آئوٹ پلان کی تنسیخ کیلئے یہ معاملہ بھیجا جائے گا، نوٹس میں علیم خان کو موقع دیا گیا ہے کہ وہ اپنا موقف 8؍ اگست کو آ کر پیش کریں۔ رپورٹ کے مطابق، جب سی ڈی اے ڈائریکٹر بلڈنگ کنٹرول دوم شفیع مروت سے نوٹسز کے وقت کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ہم نے پچاس ہائوسنگ اسکیموں کے آپریٹرز کو نوٹس بھیجے ہیں جن میں علیم خان کی پارک ویو سوسائٹی بھی شامل ہیں۔