اسلام آباد(این این آئی) بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل)کے سربراہ سردار اختر جان مینگل نے کہاہے کہ سی پیک کے نام پر اس ملک اور قوم کے ساتھ فراڈ کیا جا ہے، ،نسلیں گزر جائیں گی مگر قرضہ نہ چکا پائیں گے، بلوچستان کا مسئلہ کابینہ میں شامل ہونے سے نہیں ٗ بلوچستان کی سیاست اور معیشت میں مداخلت بند کرنے سے ہوں گے،بلوچستان کے مسائل کو گولیوں سے حل کرنے کی کوشش کی گئی،،خدارا بلوچستان کو تجربہ گاہ بنانے کی عمل کو روکا جائے۔
جمعہ کو نیشنل پریس کلب میں میٹ دی پریس سے خطاب کرتے ہوئے اختر مینگل نے کہا کہ سی پیک کے تحت گوادر کیلئے پچاس لاکھ ڈالر سے زائد خرچ کیے جا رہے ہیں،گوادر میں اس وقت پانی اور بجلی موجود ہی نہیں،گوادر میں گھر کے باہر سے پانی کا گیلن چوری ہوتا ہے۔بی این پی مینگل کے سربراہ کا کہنا تھا کہ 25 جولائی کے انتخابات پہلا الیکشن تھا اورنہ ہی آخری ہو گاٗمیں نے اس طرح کے الیکشن تاریخ میں پہلے کبھی نہیں دیکھے،پاکستان مین 1970کے الیکشن کے نتائج کو قبول کر لیا جاتا تو ملک مشکلات سے دوچار نہ ہوتا،نا دیدہ قوتوں نے انتخابی نتائج کو تسلیم نہ کرنے دئیے،الیکشن کمیشن اور نگراں حکومت کو دھاندلی کا گینز ایورڈ ملنا چاہئے،پولنگ کے دن ووٹنگ کی عمل کو جان بوجھ کر سست رکھا گیا،الیکشن میں ووٹوں کی گنتی کے عمل کے دوران امیدواروں کے ایجنٹس کو گنتی کے عمل سے باہر رکھا گیا،نتائج کہاں سے آرہے تھے ٗکسی کو کوئی پتہ نہیں،بلوچستان کو پورے الیکشن دھاندلی کا43فیصد ملا۔انہوں نے کہا کہ بی این پی میں قبیلے ہیں مگر کوئی گروپ بندی ہیں،اس میں تمام فرقوں اور قبیلوں کے لوگ شامل ہیں،یہ بلوچستان میں بسنے والے لوگوں کی جماعت ہے،ملک اور بلوچستان کے حالات دونوں الگ ہیں،ملکی حالات کے بارے میں اسلام آباد میں بیٹھے لوگ تو واقف ہوں مگر سنگلاخ اور دور دراز بلوچستان کی حالات سے نا واقف ہوں، یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم ایک دوسرے کے غموں اور خوشیوں کو سیٹلائٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے شیئر کرتے ہیں،
ایک ہی ملک میں رہتے ہیں نہ کوئی سرحدی باڑ ہے لیکن پھر بھی ایک دوسرے کے غموں سے نا آشنا ہیں،ایک دوسرے کے غموں میں بازو بننا چاہیے ۔ اختر مینگل نے کہا کہ ملک کو مزید تجربہ گاہ بنانے کے عمل سے ملک تباہی کی طرف گامزن ہو گا،عوام میں بددلی پیدا ہو گی،دنیا میں ان حرکتوں کی وجہ پاکستان مذاق بن کر رہ گیا ہے،ان تجربات کو روکنے کیلئے نا دیدہ قوتوں کے خلاف سیاسی قوتوں کو کھڑا ہونا ہو گا،مگر مجھے ایسی کوئی صورتحال دکھائی نہیں دیتی،
پاکستان کی جمہوری قوتیں سیاسی مفادات کیلئے ان قوتوں کے ساتھ کمپرومائز کیا۔انہوں نے کہاکہ کسی نے بھی ہم سے روڈ،سکول،ہسپتال میں ادویات کی فریاد نہیں کی بلکہ اپنے پیاروں کی بازیابی کی فریاد کی، لوگ پریشان تھے کہ ووٹ دینے کی صورت میں ان کے پیاروں کے غائب کیے جانے کا خوف تھا،یہاں تو وزیر عظم اور وزیروں کو غائب کیا گیا ۔اختر مینگل نے کہا کہ یہاں کی پولیٹکل ایلیٹ نے آج تک اقتدار اور اختیار کے فرق کو نہیں سمجھا،اختیار ملنے کے بعد کسی میں جرات نہیں ہوتی کہ کان پکڑ کر کسی کو نکالا جائے،
یہاں کی ایلیٹ نے کمپرومائزڈ اقتدار لیا ٗاختیارات نہیں۔سربراہ بی این پی مینگل کا کہنا تھا کہ تمام پارٹیوں نے بلوچستان کو حقوق دینے کیلئے آل پارٹیز کانفرنس میں اعلی انصاف کے ادارے کے سامنے معاہدہ کیا مگر آج تک اس پر عمل نہیں کیا،جمہوری قوتیں حقوق کی راہ میں موجود رکاٹوں کو سامنے لائے،نیپ قانون کے تحت گرفتار شدہ افراد کو دس دن کے اندر عدالتوں میں پیش کرنا لازمی ہے۔میں اسلام آباد میں مری گھومنے نہیں آیا بلوچستان کامقدمہ لے کر آیا ہوں،سپریم کورٹ میں ہمارے مطالبات کا مذاق اڑایا گیا،
ان مسائل کو بلوچستان کی صوبائی حکومت حل نہیں کر سکتی،ہمیں بتائے جائے بلوچستان کے مسائل کیسے حل ہوں گے،نواز شریف کے سامنے بھی مطالبات رکھے مگر وہ بھی بے بس دکھائی دیئے۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ماضی میں بھاری مینڈیٹ لینے والی حکومتیں بھی ڈلیور نہیں کر پائیں ،ان کے پاس تو مطلوبہ تعداد ہی نہیں،دعوے تو بہت کیے جاتے ہیں،لگتا ہے سٹے کا کاروبار چل رہا ہے۔انہوں نے کہاکہ بلوچستان اقتدار تک پہنچنے کا ذریعہ ہے اور نہ تھا،
کچھ قوتوں نے بلوچستان کے معاملات کو پنے ہاتھوں میں رکھے ہوئے ہیں،بلوچستان ترجیح ہی نہیں رہی۔سیاستدانوں کی ناکامی اور اسٹبلشمنٹ کی بڑھتی اثر و رسوخ کے بارے میں انہوں نے کہا کہ اس کی وجہ اجتماعی مفادات پر ذاتی مفادات کو ترجیح دینا ہے،ہر ادارہ کو اپناکام کرنا چاہیے،سیاستدانوں کو ملٹری کو بتانا چاہیے کہ آپ اپنا کام کریں،دیگر ممالک میں بھی فوج ہے وہ کیسے کام کرتی ہے اس اسکو دیکھنا ہو گا۔انہوں نے کہا کہ کٹھ پتلیوں سے بلوچستان کے اور نہ ہی پاکستان کے مسائل حل ہوں گے،صوبے کے حالات کی بہتری سب کی خواہش ہیں۔انہوں نے کہاکہ بہت سے معاملات پر کھل کر اظہار خیال بھی نہیں کر سکتے،قومی یا صوبائی اسمبلی کی نشست رکھنے کا فیصلہ پارٹی اجلاس کے بعد کیا جائے گا۔
اختر مینگل نے کہاکہ وسائل کا اختیار ہمیں دیا جائے،افغانوں کو واپس بھیجا جائے،فیڈرل پبلک سروس کمیشن میں چھ فیصد کوٹہ پر عمل درآمد کیا جائے، مطالبات کسی میونسپل کارپوریشن کے چئیرمین کے سامنے نہیں رکھے ٗ ملک کے منتخب وزیر اعظم کے پاس ر کھے۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جو پارٹیاں بلوچستان کے مسئلہ کو اولین ترجیح دیں گی ان کے ساتھ اتحادکیا جائیگا،سپریم کورٹ کا دروازہ حقیقی طاقت کو معلوم کرنے کیلئے کھٹکھٹایا تھا،ہم دس،دس سال سے انتظار کر رہے ہیں،دس دن مزید انتظار کرنے میں کوئی حرج نہیں،جلدی اقتدار حاصل کرنے والوں کو ہے ہمیں نہیں۔اختر مینگل نے کہاکہ ہمارے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی،پنتالیس سے پچاس فیصد گمشدہ لوگ واپس آگئے ہیں،بلوچستان سے ہمیشہ سردار ہی ایوانوں میں پہنچتے رہے،ہمیں تو سزا ملی،باقی سرداروں کوبھی سزا ملنی چاہیے۔