اتوار‬‮ ، 17 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

صدارتی انتخابات میں بھی کانٹے دار مقابلہ ،سردار اختر مینگل وزیراعظم ،وزیراعلیٰ بلوچستان اور نئے صدر مملکت کے انتخاب میں سب سے زیادہ اہمیت اختیار کر گئے،حیرت انگیزانکشافات

datetime 2  اگست‬‮  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد/کوئٹہ(آئی این پی )بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ اور بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل )کے صدر سردار اخترجان مینگل وزیراعظم ،وزیراعلیٰ بلوچستان اور نئے صدر مملکت کے انتخاب میں سب سے زیادہ اہمیت اختیار کر گئے ہیں ، وہ جس پارٹی کیساتھ جائیں گے اس کا وزیراعظم منتخب ہوگا اور صدر ممنون حسین کی مدت مکمل ہونے کے بعد ستمبر کے پہلے ہفتے میں صدارتی الیکشن میں بی این پی (مینگل )کے 15ووٹ فیصلہ کن کردارادا کر سکتے ہیں ۔

تفصیلات کے مطابق بی این پی مینگل کے صدر اختر مینگل سے تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی کے وفود نے چوبیس گھنٹوں کے دوران دو اہم ملاقاتیں کی ہیں جبکہ بی اے پی بلوچستان کے صدر اور وزارت اعلیٰ کے اہم امیدوار جام کمال نے بھی ان سے اہم ملاقات کی ۔ ذرائع کے مطابق تحریک انصاف کے وفد کو اختر مینگل نے 6 نکاتی مطالبات پیش کئے ہیں جن کا جواب متوقع وزیراعظم عمران خان سے لیکر نعیم الحق اور سردار یار محمد رند آج (جمعہ کو) اختر مینگل کو دیں گے جس کے بعد اس بات کا فیصلہ ہوگا کہ اختر مینگل اور عمران خان کے درمیان ملاقات ہونی ہے یا نہیں ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بلوچستان اسمبلی میں اس وقت بی این پی کے 7ارکارن ہیں اور خواتین کی مخصوص نشستیں ملا کر ان کی تعداد10ہوجائیگی جبکہ قومی اسمبلی میں ان کے ارکان کی تعداد چار ہے اور سینیٹ میں بھی ان کا ایک رکن ہے ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سردار اختر مینگل کی پارٹی کے ووٹ اسی طرح عمران خان کے وزیراعظم بننے کیلئے ضروری ہیں جس طرح ایم کیو ایم کے ووٹ ضروری ہیں ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بلوچستان کی وزارت اعلیٰ کے حوالے سے بی این پی کو نظر انداز کرکے اگر وزیراعلیٰ بنایا گیا تو صوبائی حکومت کو مشکلات پیش آسکتی ہیں کیونکہ اختر مینگل کے جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمان ، عوامی نیشنل پارٹی ، پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے ارکان سے قریبی رابطے ہیں ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بی این پی کے ووٹ آئندہ صدارتی الیکشن میں بھی اہمیت کا حامل ہے

کیونکہ بلوچستان اسمبلی کے 65ووٹ میں سے جس کو اکثریت ملے گی وہ آئندہ صدر پاکستان منتخب ہو سکتا ہے اور مجموعی طور پر بی این پی کے 15ووٹ بنتے ہیں اور صدارتی الیکشن میں بھی کانٹے دار مقابلہ متوقع ہے اور صدارتی الیکشن کیلئے مسلم لیگ (ن) ، پیپلزپارٹی ، ایم ایم اے ، اے این پی ، پختونخوا ملی عوامی پارٹی ، نیشنل پارٹی حاصل بزنجو گروپ اور دیگر اپوزیشن کے چھوٹے گروپ مشترکہ صدارتی امیدوار لائیں گے جو تحریک انصاف اور اس کے اتحادی جماعتوں کے صدارتی امیدوار کا مقابلہ کرے گا کیونکہ سندھ اور پنجاب اسمبلی میں متحدہ اپوزیشن کے پاس کافی ووٹ ہیں اور سینیٹ اور قومی اسمبلی میں بھی متحدہ اپوزیشن کے ووٹوں کی تعداد حکومت اتحاد سے کچھ کم ہے لہٰذا اس صورتحال میں بی این پی کے 15ووٹ فیصلہ کن کرداراختیار کر سکتے ہیں ۔

موضوعات:



کالم



بس وکٹ نہیں چھوڑنی


ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…

ملک کا واحد سیاست دان

میاں نواز شریف 2018ء کے الیکشن کے بعد خاموش ہو کر…