لاہور( نیوز ڈیسک) قومی احتساب بیورو ( نیب) لاہور کے ڈائریکٹر جنرل شہزاد سلیم نے کہا ہے کہ صاف پانی کیس میں قمر الاسلام راجہ کو ٹھوس شواہد کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا ، جس فلٹریشن پلانٹ کی تنصیب پر اوسطاً 25سے 40لاکھ روپے خرچ آتا ہے اسی معیار کے 116پلانٹس ڈیڑھ کروڑ فی کس میں لگائے گئے ،پلی بار گین سے متعلق عمومی تاثر درست نہیں ،یہ صرف عدالت کے حکم پر ہی ہو سکتی ہے ،کچھ کرداروں کے تفتیش میں شامل نہ ہونے کے باعث احد چیمہ کے خلاف عبوری چالان پیش کیا گیا ہے
تاہم اس پر کام مکمل ہونے والا ہے اور جلد حتمی چالان پیش کر دیاجائے گا،لاہور پارکنگ کمپنی اور پنجاب پاور کمپنی میں کروڑوں روپے کی ریکوری کر کے قومی خزانے میں جمع کرائی گئی ہے ۔ ایک نجی ٹی وی کو انٹر ویو میں انہوں نے کہا کہ نیب میں ون مین شو نہیں بلکہ 10لوگوں کا بورڈ آف ڈائریکٹرز ہوتا ہے ۔ ہم سے بھی غلطیاں اور کوتاہی ہو سکتی ہے لیکن جو بہترین سسٹم ہو سکتا ہے نیب نے اسے اپنایا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہر کوئی احتساب چاہتا ہے لیکن دوسروں کا ۔ہمارا کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں ، نیب کا ادارہ بلا امتیاز اور بلا تفریق احتساب کرتا ہے ۔سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف خوشحال پاکستان کیس ثبوت نہ ہونے کی بناء پر بند کیا گیا ،یوتھ فیسٹول کی تحقیقات بھی ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے ختم ہوئی ۔ انہوں نے کہا کہ ایسا نہیں ہوتا کہ جسے مرضی بلالیا جائے ،نیب کا بلایا جانا مذاق نہیں ہوتا ، ہم نے بھی عدالت میں جانا ہوتا ہے اور اگر ہمارے پاس کچھ ہوگا تو عدالت کو جواب دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم جب کسی کو بلا کر سنتے ہیں تو اس میں مزید کردار سامنے آتے ہیں ۔ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب کو اسی طرح طلب کیا گیا اور ان سے سوالات کئے گئے جبکہ انہوں نے بعض سوالات کے بذریعہ ڈاک جوابات بھجوائے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ لاہور پارکنگ کمپنی میں آٹھ کروڑ روپے کی ریکوری کر کے قومی خزانے میں جمع کرائے ہیں۔
پنجاب پاور کمپنی کیس میں 43کروڑ روپے خرد برد کئے گئے اور اس سے اثاثے خریدے گئے ہم نے تمام اثاثے پکڑ کر منجمد کر دئیے ہیں اور یہ سرکار کے حق میں سرنڈ کر دئیے گئے ہیں اب اس جائیداد کی مالیت مارکیٹ میں ایک ارب روپے بنتی ہے جو حکومت کو واپس ہو رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ چیئرمین نیب کرپشن کے ہر معاملے میں سو موٹو لے سکتے ہیں ،جب مضبوط شواہد آتے ہیں تو کارروائی آگے بڑھائی جاتی ہے ۔ نیب کی پالیسی ہے کہ کرپشن کے بڑے بڑے کیسز پر ہاتھ ڈالا جائے او رلوٹی ہوئی
دولت واپس لے کر قومی خزانے میں واپس جمع کرائی جائے ۔انہوں نے قمر الاسلام راجہ کی گرفتاری سے متعلق سوال کے جواب میں کہا کہ انہیں صاف پانی کمپنی میں ٹھوس شواہد کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا ۔ جب خود ٹھیکیدار ہوں تو پانی کے فلٹریشن پلانٹس 25لاکھ میں لگ جاتے ہیں لیکن جب سرکار کا پیسہ ہوتو ڈیڑھ کروڑ روپے خرچ ہوتے ہیں۔ جو پلانٹس مختلف اداروں یا این جی اوز نے 25سے 40لاکھ روپے میں لگائے ہیں صاف پانی کمپنی نے ڈیڑھ کروڑ فی کس کے حساب سے 116فلٹریشن پلانٹس لگائے اور پھر کہا جاتا ہے نیب نے گرفتار کر لیا ۔