لاہور ( این این آئی) احتساب عدالت نے صاف پانی کمپنی کیس میں گرفتار مسلم لیگ (ن) کے رہنما انجینئر قمر السلام اور سابق سی ای او صاف پانی کمپنی وسیم اجمل کا 14روزہ جسمانی ریمانڈ پر نیب حکام کے حوالے کرتے ہوئے دونوں کو 9 جولائی کو دوبارہ پیش کرنے کا حکم دیدیا ۔ انجینئر قمر الاسلام کو مسلم لیگ (ن) نے این اے 59 سے چوہدری نثار کے مدمقابل امیدوار نامزد کیا ہے جنہیں نیب نے پیر کے روز صاف پانی کیس میں گرفتار کیا تھا۔قومی احتساب بیورو (نیب ) نے قمر الاسلام اور
سابق سی ای او صاف پانی کمپنی وسیم اجمل کو سخت سکیورٹی میں لاہور کی احتساب عدالت میں جج نجم الحسن بخاری کے روبرو پیش کیا۔نیب پراسیکیوٹر کی جانب سے بتایا گیا کہ ملزم انجینئر قمر اسلام راجہ پر 84واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس کا ٹھیکہ غیر قانونی طورپر مہنگے داموں دینے کا الزام ہے ،واٹر پلانٹس میں 56ریورس آسموسز پلانٹس تھے جبکہ 28الٹرا فلٹریشن پلانٹس شامل ہیں، واٹر پلانٹس چار تحصیلوں میں لگائے جانے تھے، جن میں حاصل پور، منچن آباد، خان پور اور لودھراں شامل ہیں،ملزم انجینئر قمرالسلام راجہ نے بدنیتی کے ذریعے بڈنگ کے کاغذات میں مالی تخمینہ بڑھا کر ظاہر کیا،ملزم کی جانب سے کے ایس بی پمپس نامی کمپنی کو مہنگے داموں ٹھیکہ دیا گیا ،ملزم قمر السلام راجہ پروکیورنمنٹ کمیٹی کے انچارج ہوتے ہوئے مہنگے داموں کے ایس بی پمپس کا ٹھیکہ منظور کیا،ملزم نے مبینہ طورپر 102واٹر فلٹریشن پلانٹس کا ٹھیکہ کے ایس بی پمپس کو مہنگے داموں دیا ،ملزم نے 102واٹر پلانٹس کا ٹھیکہ بورڈ آف ڈائریکٹر سے منظور کروایا بلکہ ٹھیکے کے کاغذات میں بعد ازاں تبدیلیاں بھی کیں۔ لہٰذا ملزم کا 14روزہ جسمانی ریمانڈ دیا جائے تاکہ مزید تفتیش کی جا سکے ۔ قمر الاسلام کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ نیب تمام کارروائی محض الزامات کی بنیاد پر کررہا ہے، نیب میں کرپشن کی درخواست آئی نا ثبوت ہے۔نیب پراسیکیوٹر وارث علی جنجوعہ نے اپنے دلائل میں کہا کہ
صاف پانی کمپنی میں قمرالاسلام چیف ایگزیکٹو تھے، وسیم اجمل آئے تو یہ اس وقت ڈائریکٹر بھی تھے، جو بھی پلانٹ لگے ان کے دور میں لگے ہیں۔انجینئر قمر الاسلام نے عدالت میں بیان دیا کہ میرے پاس صاف پانی کمپنی کا انتظامی اختیار نہیں تھا، میرا قصور یہ ہے کہ کروڑوں روپے بچائے، سب سے کم بولی 111 کروڑ کی آئی جسے ٹھیکہ دیا جانا تھا لیکن ہم مذاکرات کرکے 98کروڑ پر لے آئے، نیب کہتی ہے مذاکرات کیوں کیے۔انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ 10سال سے پارلیمنٹ کا ممبر ہوں
اور ایساسلوک کیا جارہا ہے جیسے غیر ملکی ہوں، میریپاں باندھ کر مخالف کو گھوڑے پر بٹھادیا گیا، میں کیسیانتخابی مہم چلاؤں۔عدالت نے قمرالاسلام کو تنبیہ کی کہ آپ عدالت میں سیاسی بیانات سے گریز کریں۔ترجمان نیب کے مطابق سابق سی ای او ملزم وسیم اجمل پر پراجیکٹ بڈنگ کے بعدغیر قانونی طورپر صاف پانی کمپنی کے کاغذات میں تبدیلیاں کرنیکا الزام ہے،ملزم کا یہ اقدام قانونی طور پر پنجاب پروکیورمنٹ رولز 2014کی سخت خلاف ورزی ہے، وسیم اجمل سابق سی ای او صاف پانی کمپنی نے
8فلٹریشن پلانٹس غیر قانونی طورپر تحصیل دنیا پور میں لگائے جبکہ متعلقہ علاقہ کنٹریکٹ کیمطابق حدود میں شامل نہ تھا،ملزم وسیم اجمل نے کنٹریکٹرز اور کنسلٹنٹ سے ملی بھگت کر تے ہوئے معاہدے کی شقوں میں ردوبدل کیا،ملزم وسیم اجمل کی جانب سے علی اینڈ فاطمہ پرائیویٹ لمیٹڈ کوبورڈ آف ڈائریکٹرز کی منظوری کے بغیر غیر قانونی طورپر 24.7 ملین کی رقم فراہم کی،ملزم وسیم اجمل نے رقم آفس کی کرایے کی مد میں ادا کی گئی، جبکہ اس آفس کا قبضہ ہی حاصل نہ کیا گیا تھا،
ملزم وسیم اجمل کی صاف پانی کمپنی میں بطور سی ای او تعیناتی بھی غیر قانونی تھی، ملزم وسیم اجمل کی تعیناتی مبینہ طورپر بورڈ آف ڈائریکٹرز کی منظوری سے کی گئی۔صاف پانی کمپنی کے سی ای او وسیم اجمل نے عدالت میں بیان دیا کہ 25سال سے سرکاری ملازمت کررہا ہوں، وزیراعلی کی خواہشات کے مطابق کام نہ کرنے پر مجھے او ایس ڈی بنادیا گیا، نیب سے ہر معاملے میں مکمل تعاون کیا اور تمام دستاویزات فراہم کیں۔انہوں نے کہا کہ کام جلدی ختم کرنے کے لیے نئے کنٹریکٹ اشتہار دیئے اور میرٹ پر کنٹریکٹ دینے کی بنا پر مجھے نکال دیا گیا۔احتساب عدالت نے دلائل مکمل ہونے کے بعد ملزم قمرالاسلام اور وسیم اجمل کو جسمانی ریمانڈ پر نیب کی تحویل میں دیا ہے اور دونوں ملزمان کو 9جولائی کو دوبارہ پیش کرنے کا بھی حکم دیاہے۔