اسلام آباد (آئی این پی) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کم ترقی یافتہ علاقے میں انسانی وسائل کی ترقی کے مالیاتی مشیر نے انکشاف کیا ہے کہ این سی ایچ ڈی میں 302پوسٹیں عرصہ 3سال سے زائد خالی پڑی تھیں جنہیں پر نہ کرنے کی وجہ سے ان پوسٹوں کو ختم کر دیا گیا، ادارے میں غیر قانونی طور پر 62سینئر گریڈکے افراد بھرتی کئے گئے جس کے بعد ادارے کو لاکھوں روپے کا
اضافی بوجھ برداشت کرنا پڑا، فنانس ڈویژن نے مجوزہ غیر قانونی بھرتیوں کو کینسل کرنے کی ہدایت جاری کر دیں، کمیٹی کو بتایا گیا کہ این سی ایچ ڈی میں سینکڑوں ملازمین ایسے بھی ہیں، جو سرکار سے دو، دو تنخواہیں وصول کررہے ہیں، این سی ایچ ڈی حکام کے عدم تعاون کی وجہ اور رابطے کے فقدان کے سبب مسائل موجود ہیں، فنانس ڈویژن نے کمیٹی کو بتایا کہ ادارے کی 2641منظور شدہ آسامیوں کا بجٹ منظور ہو چکا ہے جبکہ انسانی وسائل کی ترقی ادارے کے حکام وزارت خزانہ کو 2943ملازمین کیلئے بجٹ کا مطالبہ کر رہے ہیں جو قانون کے مطابق ہمارے اختیارات میں نہیں۔ چیئرمین این سی ایچ ڈی روزینہ عالم خان نے کمیٹی کو بتایا کہ فنانس ڈویژن عرصہ دراز سے ادارے کو فنڈز دینے میں لیت و لعل سے کام لے رہا ہے۔ ڈائریکٹر جنرل این سی ایچ ڈی ثمینہ وقار نے بتایا کہ عدالتی امور کی وجہ سے 302پوسٹیں عرصہ دراز سے خالی تھیں، جنہیں فنانس ڈویژن اب ان پوسٹوں کو ختم کرنے کا کہہ رہا ہے۔ چیئرمین کمیٹی عثمان خان کاکڑ نے کمیٹی کی رضا مندی سے سفارش کی کہ این سی ایچ ڈی اور فنانس ڈویژن باہمی اجلاس منعقد کر کے اس مسئلے کو حل کریں اور اس حوالے سے کمیٹی کو 15جولائی تک مسائل حل کرنے کی رپورٹ جمع کرائیں، فنانشل ایڈوائزر محمد بلال نے کمیٹی کو بتایا کہ این سی ایچ ڈی میں کوئی مالیاتی ڈسپلن نہیں ہے، ادارے کے لوگ فنانس ڈویژن
میں بجٹ لینے آتے ہیں تو ان کی گفتگو ناقابل برداشت ہوتی ہے، فنانس ڈویژن قانون کے خلاف ادائیگیاں کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا،ادارے کے حکام جب تک جعلی ڈگری ہولڈرز اور ڈبل تنخواہ لینے والے ملازمین کی تفصیلات سے آگاہ نہیں کرتے اس وقت تک ملازمین کو بقایا جات دینا ممکن نہیں۔ کمیٹی اجلاس میں جوائنٹ سیکرٹری ایجوکیشن، سینیٹر کلثوم پروین، سینیٹر فدا محمد، سینیٹرحاجی مومن خان، سینیٹر مولوی فیض محمد، سینیٹر نگہت مرزا سمیت ادارے کے اعلیٰ حکام موجود تھے۔