اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی گزشتہ روز ایڈیشنل سیشن جج رمیش لال کی سرزنش ، عدالت میں موبائل فون لانے پر سرزنش ، موبائل فون ٹیبل پر پٹخ دیا، کیا عدالت کے اندر عدالت کی توہین کی گئی، ماتحت عدلیہ پہ چیک اینڈ بیلنس کا نظام موجود پھر نت نئے طریقے کیوں؟معروف صحافی نے چیف جسٹس کے اقدام پر سوال اٹھا دئیے۔
تفصیلات کے مطابق معروف صحافی عقیل احمد ترین نے چیف جسٹس کے گزشتہ روز سندھ کی مقامی عدالت میں جج کی سرزنش کے واقعہ پر سوشل میڈیا ویب سائٹ فیس بک پر اپنے ایک پیغام میں لکھا ہے کہ میں نے پہلے چیف صاب کے اس اقدام کو سراہالیکن بعد میں پڑھا تو پتہ لگاضابطہ اخلاق اور آئین ماتحت عدلیہ کے جج کےساتھ اس طرج کے برتاؤکوسختی سے روکتا ہے .کوئی اعلی عدلیہ کاجج ماتحت عدلیہ کے جج کو اسوقت ڈسٹرب نہیں کرسکتا جب اسنے عدالت لگائی ہوعدالت کا وقار رکھنا جہاں اس جج کی زمہ داری ہے وہاں پہ اعلی عدلیہ کی بھی.اس کیلئے مانیٹرنگ ٹیمیں ہوتی ہیں جو اپنے طریقے سے کام کرتی ہیں انکا کام انصاف کی رفتار دیکھنا ہوتا ہےویسے بھی یہ کوئی عام جج نہ تھا سیشن جج تھا جسکا اپنا استحقاق ہوتا ہے سرزنش بعد میں بھی ہوسکتی تھی ,بند کمرے میں اسکو معزول بھی کیا جاسکتا تھا لیکن اس طرح سے عدالت کے اندر عدالت کی توہین سے عدلیہ کے معاملات میں بہتری نہیں آئیگی الٹا سوال اٹھیں گے ,تنقید ہوگی ,جب ماتحت عدلیہ پہ چیک اینڈ بیلنس کا مروجہ طریقہ کار ہے تو پھر یہ نت نئے طریقے کیوں؟کوئی اعلی عدلیہ کاجج ماتحت عدلیہ کے جج کو اسوقت ڈسٹرب نہیں کرسکتا جب اسنے عدالت لگائی ہوعدالت کا وقار رکھنا جہاں اس جج کی زمہ داری ہے وہاں پہ اعلی عدلیہ کی بھی.اس کیلئے مانیٹرنگ ٹیمیں ہوتی ہیں جو اپنے طریقے سے کام کرتی ہیں انکا کام انصاف کی رفتار دیکھنا ہوتا ہےویسے بھی یہ کوئی عام جج نہ تھا سیشن جج تھا جسکا اپنا استحقاق ہوتا ہے سرزنش بعد میں بھی ہوسکتی تھی ,بند کمرے میں اسکو معزول بھی کیا جاسکتا تھا لیکن اس طرح سے عدالت کے اندر عدالت کی توہین سے عدلیہ کے معاملات میں بہتری نہیں آئیگی الٹا سوال اٹھیں گے ,۔