لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں پہلی سے لیکر دسویں جماعت تک قرآن کی تعلیمی لازمی اور لاؤڈ سپیکر ایکٹ ترمیمی بل2018ء متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا ،وزیر قانون رانا ثناء نے پی ٹی آئی کی خواتین سے متعلق اپنے الفاظ واپس لیتے ہوئے کہا کہ ایوان میں ایسی کوئی بات نہیں کہی جس پر معافی مانگوں ،اپوزیشن جو چاہے کر لے ایوان کے اندر لفظ’’Sorry‘‘ کا ’’ایس ‘‘ بھی نہیں کہوں گا ، اپوزیشن کی جانب سے احتجاج کرتے ہوئے نعرے بازی کی گئی،
حکومتی ارکان کے بھی نعروں سے ایوان مچھلی منڈی کا منظر پیش کرنے لگا ،قائد حزب اختلاف میاں محمود الرشید واک آؤٹ کر گئے ۔ پنجاب اسمبلی کا اجلاس گزشتہ روز بھی اپنے مقررہ وقت نو بجے کی بجائے ایک گھنٹہ پندرہ منٹ کی تاخیر سے سپیکر رانا محمد اقبال خاں کی صدارت میں شروع ہوا۔اجلاس میں تین محکموں زراعت، سکولز ایجوکیشن اور ہائر ایجوکیشن کے بارے میں سوالوں کے جوابات دیئے جانے تھے لیکن محکمہ زراعت کے وزیر نعیم اختر بھابھہ اور پارلیمانی سیکرٹری سپیکر کی ہدایت کے باوجود اپنے محکمہ کے بارے میں سوالوں کے جوابات دینے کے لئے ایوان میں نہیں آئے جبکہ اسپیکر پنجاب اسمبلی کی طرف سے ہائر ایجوکیشن کے سیکرٹری کو ایوان میں عدم موجودگی پر اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔رکن اسمبلی ڈاکٹر نوشین حامد کے سوال پر محکمہ سکولز ایجوکیشن کے پارلیمانی سیکرٹری روفن جولیئس نے کہا کہ صوبہ پنجاب کے تمام سرکاری سکولوں میں بچوں پر تشدد کی سختی سے ممانعت ہے اور اگر کہیں ایسا واقعہ سامنے آئے تو ذمے دار کو فارغ کر دیا جاتا ہے اور اس کی انکوائری لگا دی جاتی ہے۔رکن اسمبلی میاں طارق کے سوال کا جواب تسلی بخش نہ ہونے کی وجہ اسے متعلقہ کمیٹی کے سپرد کردیا گیا ہے اور اس کی رپورٹ 20مئی تک طلب کر لی گئی ۔ رکن اسمبلی آصف باجوہ کے سوال کے جواب میں پارلیمانی سیکرٹری سکولز ایجوکیشن نے بتایا کہ حکومت کی پالیسی ہے کہ جو بھی نیا تعلیمی ادارہ تعمیر کیا جائے گا وہ دو منزلہ ہوگا تاکہ بعد میں جگہ کی قلت نہ ہو۔
وقفہ سوالات کے بعد تحریک انصاف کے رکن اسمبلی میاں اسلم اقبال نے نکتہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے کہا کہ سرکاری محکموں کی طرف سے پنجاب اسمبلی کے ایوان کی جو بے توقیری کی جا رہی ہے یہ ہمارے لئے ایک سوالیہ نشان ہے، سپیکر کی رولنگ پر بھی ادارے عمل نہیں کرتے،، میری تجویز ہے کہ تمام سرکاری محکموں کے سربراہان کو اسمبلی میں طلب کیا جائے اور اس بات کی وضاحت کی جائے کہ وہ اسمبلی بزنس کو اہمیت کیوں نہیں دیتے۔جس پر اسپیکر نے پیر ایک بجے دوپہر پنجاب کے تمام سرکاری محکموں کے سربراہان کو طلب کر لیا ۔
اقلیتی رکن شہزاد منشی اور دیگر نے کرسچن میرج ایکٹ کے تحت ان کی شادیوں کے اندراج نہ کئے جانے پر احتجاج کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ ہمیں شادی اندراج کے ددوران جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے انہیں ددور کیا جائے ۔جس پر صوبائی وزیر اقلیتی امور خلیل طاہر سندھو نے انہیں یقین دہانی کرائی کہ شادی کے اندراج میں انہیں جو رکاوٹیں اور مسائل ہیں انہیں فوری دور کیا جائے گا۔اپوزیشن رکن اسمبلی ڈاکٹر نوشین حامد نے نکتہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے کہا کہ دوروز قبل اسمبلی میں یہ طے ہوا تھا کہ پی ٹی آئی کی خواتین کے بارے میں وزیر قانون رانا ثناء اللہ کی طرف سے کہے گئے نا زیبا الفاظ پر ان سے وضاحت مانگی جائے گی
اور معذرت کرائی جائے گی۔ آج وہ ایوان میں موجود ہیں تو اپنے ریمارکس پر معذرت کریں۔جس پر صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ خاں نے کہا کہ میری20منٹ کی میڈیا سے گفتگو میں صرف ایک لفظٖ کو لیکر اتنا شور ڈالا گیا،میں اپنے الفاظ واپس لے چکا ہوں اور ویسے بھی میں نے ایوان میں ایسی کوئی بات نہیں کہی جس پر معافی مانگوں ،اپوزیشن جو چاہے کر لے میں ایوان کے اندر لفظ’’Sorry‘‘ کا ’’ایس ‘‘ بھی نہیں کہوں گا اور اگر یہ مزید کوئی بات چاہتے ہیں تو بات پھر دور تک پہنچے گی۔جس پر قائد حزب اختلاف میاں محمود الرشید نے کہا کہ وزیر قانون نے اگر اپنے الفاظ واپس لے لئے ہیں تو معذرت بھی کر لیں اس سے وہ چھوٹے نہیں ہو جائیں گے
اور حکومتی بنچز کی جانب سے رانا ثناء اللہ کے بیان پر ڈیسک بجانا کوئی اچھی روائت نہیں ۔جس کے جواب میں حکومتی رکن رانا ارشد نے کہا کہ عائشہ گلا لئی بھی کسی کی بیٹی ہیں اور ٹیرین بھی کسی کی بچی ہے اور مینار پاکستان میں حوا کی بیٹی کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کا کون ذمہ دار ہے۔مولانا الیاس چنیوٹی نے نکتہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے کہا کہ رانا ثناء اللہ نے خواتین کے بارے میں جو الفاظ کہے وہ واپس لے لئے لیکن اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے فرمان کی روزانہ ایوان میں توہین ہو تی اس پر کوئی بات نہیں کرتا اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ نے عورت کو اپنا سر ڈھانپ کر رکھنے کو کہا ہے اس توہین کے بارے میں کوئی بات نہیں کرتا جو مسلسل ہو رہی ہے۔
اس دوران اپوزیشن اور حکومتی بنچوں کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف فقرے کسے جانے لگے اور دونوں جانب سے شور شرابے کے باعث ایوان مچھلی منڈی کا منظر پیش کرنے لگا ،حکومتی اور اپوزیشن ارکان کی طرف سے ایک دوسرے کی مخالفت میں نعرے لگائے گئے ۔قائد حزب اختلاف میاں محمود الرشید حکومتی بنچز اور وزراء کی جانب سے غیر اخلاقی رویے اور گفتگو کے خلاف ایوان سے واک آؤٹ کرگئے ۔جس کے بعد اسپیکر کی ہدایت پر صوبائی وزیر چوہدری شیر علی اور ملک ندیم کامران اپوزیشن کو منا کر ددوبارہ ایوان میں لے کر آئے۔
جس پر سپیکر رانا محمد اقبال نے سرکاری کارروائی کو آگے بڑھایا۔ پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر ڈاکٹر وسیم اختر کی طرف سے تعلیمی اداروں میں قرآن کی تعلیم لازمی کے حوالے سے ایک بل ایوان میں پیش کیا گیا جسے رولز معطل کرکے ایجنڈے پر لایا گیا اور ایوان میں پیش کیا گیا ۔یہ بل ڈاکٹر وسیم اختر طرف سے پرائیویٹ بل کے طور پر پیش کیا گیا جسے اپوزیشن اور حکومت دونوں کی جانب سے متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا ۔ اس بل کی منظوری کے بعد اب پہلی جماعت سے لیکر دسویں جماعت تک قرآن کی تعلیم اردو ترجمے کے ساتھ دی جائے گی۔
تاہم وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے ایوان میں اعلان کیا کہ اس بل کا اطلاق غیر مسلموں پر نہیں ہوگا۔ اجلاس میں دوسرا بل لاؤڈ سپیکر ایکٹ ترمیمی بل2018ء بھی متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا ۔لاؤڈ سپیکر کے استعمال کے بارے میں پہلے اذان اور خطبہ جمعہ کے لئے ایک ہی سپیکر استعمال ہوتا تھا مگر اب اس بل کی منظوری کے بعد چار لاؤڈ سپیکر لگانے کی اجازت ہو گی جس میں اذان،درود شریف، جمعۃ المبارک کے موقع پر عربی خطبہ،، خطبہ عیدین، فوتگی یا بچے کی گمشدگی کے بارے میں اعلان کرنے کی بھی جازت ہو گی تاہم کسی قسم کی منافرت فرقہ وارانہ تقاریر کی قطعاْ اجازت نہیں ہوگی۔وزیر قانون را ثناء اللہ خان اور قائد حزب اختلاف میاں محمود الرشید کی جانب سے مذکورہ دونوں بلوں پر تمام ممبران کو مبارکباد دینے کے ساتھ ڈاکٹر وسیم اختر کو بھی بل ایوان میں لانے پر خراج تحسین پیش کیا گیا۔