اسلام آباد (آئی این پی)سینیٹ میں پیپلزپارٹی نے وفاقی بجٹ کو مفروضوں اور اعداد و شمار کے گورکھ ایجنڈے پر مبنی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وفاقی بجٹ صرف ارب پتی لوگوں کیلئے ہے اس سے غریب آدمی کا چولہا متاثرہوگا،ایوان صدر میں کیا سونے کے سموسے کھائے جارہے ہیں جو اسکا روزانہ کا خرچہ98لاکھ ہے،حکومت نے پارلیمان کو آرڈیننس فیکٹری سمجھا ہوا ہے،بجٹ میں حکومت ایک ہاتھ سے لوگوں کی تنخواؤں میں10فیصد اضافہ کیا اور دوسرے ہاتھ سے21فیصد تنخواہیں کم کر دیں،
غیر آئینی اور غیر قانونی بجٹ کوپیپلز پارٹی کسی صورت تسلیم نہیں کریگی، سینیٹ میں حکومت کو واک اوور نہیں دیں گے یہ عوام دوست نہیں عوام کیلئے تباہ کن بجٹ ہے،حکومت کی حالت کمزور بطخ جیسی ہے جسکی دونوں ٹانگیں لڑکھڑا رہی ہیں، بجٹ سے حکومت اور اس کے دوستوں کی دس کی دس انگلیاں گھی میں ہیں، حکومت اس وقت اقتدار کے نشے میں ہے،حکومت کی جانب سے صرف لاہور کو چمکانے کا کام چل رہا ہے۔انتخابات سے قبل پورے مالی سال کا بجٹ پیش کرنا پری پول دھاندلی ہے، چیئرمین ایف بی آر طارق پاشا استعفیٰ دے رہے ہیں انہوں نے اپنے سر پر ہاتھ رکھا ہوا ہے کہ اس بجٹ کا دفاع کیسے کیا جائے۔ان خیالات کا اظہار وہ پیر کو سینیٹ میں مالی سال2018-19کے وفاقی بجٹ پر بحث کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کی سینئر رہنما اور اپوزیشن لیڈر سینیٹر شیری رحمان اور سینیٹرسکندر میندھرو نے کیا۔اپوزیشن لیڈر سینیٹر شیری رحمان نے مزید کہا کہ غریب عوام ٹیکس دے رہے ہیں جبکہ امیروں کیلئے ٹیکس ایمنسٹی اسکیم لا ئی جا رہی ہے، آئین کی جس شق کے تحت مفتاح اسماعیل کو وزیر خزانہ بنایا گیا ہے وہ 6ماہ سے زائد وزیرنہیں رہ سکتے،اس لئے وہ اب ایمرجنسی وزیر ہیں،یہ پہلی حکومت ہے جس نے ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کی بجائے کم کیاہے ،جب یہ حکومت آئی ایک ملین ٹیکس دینے والے تھے اب وہ تعداد بہت کم ہوگئی ہے،
یہ بجٹ پری پول دھاندلی ہے۔شیری رحمان نے کہا کہ ورلڈ بینک نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ رواں سال بجٹ خسارے سے نمٹنے کیلئے پاکستان کو17ارب ڈالرز کی ضرورت ہے،سارے ملک کو مقروض کرکے رکھ دیا ہے، 2 سے ڈھائی ارب ڈالرز کے زر مبادلہ کے زخائر رہ گئے ہیں جوصرف 6 سے 7 ہفتوں کیلئے کافی ہوں گے،پیٹرولیم کا بم غریب عوام پر گرایا گیاہے،پٹرولیم لیوی پر 20سے 30روپے اضافہ کیا گیا ہے،جس کا مطلب یہ ہے کہ اب پیٹرولیم کی قیمت 200 فیصد بڑھے گی،
مٹی کا تیل 400فیصد بڑھانے کیلئے اب ایس آر او کی ضرورت نہیں ہوگی، میرے اور آپ کے گھروں کے چولہے متاثر ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ ڈائریکٹ کی بجائے ان ڈائریکٹ ٹیکسز ہی پر سارا زور ہے،مجھے یہ بتاتے ہوئے شرم آرہی ہے کہ ایوان صدر کا98 لاکھ روانہ کا خرچہ ہے،کیا یہ سونے کے سموسے کھا رہے ہیں،ممنون حسین معصوم سے صدر ہیں ، آصف زرداری کے دور میں ایوان صدر کا خرچ چھ لاکھ روپے روزانہ ہوا تو انہوں نے کہا کہ ایوان میں آنے والے لوگوں کو میری جیب سے چائے پلائی جائے،
اضافی لائٹس بند کی جائیں، یہ سب ریکارڈ پر موجود ہے،حکومت کوشاید معلوم بھی نہیں ہوگاکہ ساری دنیا دیکھ رہی پاکستان کس طرح آگے بڑھ رہا ہے جو پارٹی ووٹ کہ تقدس کی باتیں کرتے ہیں اس نے صوبوں سے بجٹ پر مشورہ تک نہی کیا بغیر آٹھویں این ایف سی ایورڈ کے لئے بجٹ چیلنج ہوگا بنیادی باتوں کو نظر انداز کیا گیا ووٹ کا تقدس اصل میں آج پامال ہوا ہے کون سی حکومت چھ سال کا بجٹ پیش کرتی ہے ووٹ کے تقدس کی باتیں کرنے والی پارٹی آج بجٹ سیشن میں کیوں نہیں؟ بجٹ سیشن میں
آج وزیر خزانہ کیوں موجود نہیں؟ حکومت کے پاس تیس دن ہیں لیکن پھر بھی تین وفاقی وزرا بنائے گئے حکومت نے پارلیمان کو آرڈیننس فیکٹری سمجھا ہوا ہے جمہوریت کا پہلا مقصد جوابدہی ہے یہ عوم کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے والا بجٹ ہے افسوس سینیٹ کہ پاس اس بجٹ کو رد کرنے کے اختیارات نہیں صوبائی حکومتیں بھی پورے سال کا بجٹ پیش کر سکتی ہے لیکن نہیں کر رہی، صوبائی حکومتیں صرف چار ماہ کا بجٹ دے رہی ہیں، ہم اس بجٹ کو اس طرح پاس نہیں ہونے دینگے یہ بجٹ ہاؤس آف کارڈز
کا منظر پیش کر رہاہے، ہر حکومت آئی ایم ایف کے پاس جاتی ہے مگ جس طریقے سے یہ جا رہے ہیں اس سے تو روز ملک مقروض در مقروض ہو رہا ہے، قرضے بھرنے کہ لئے روز نئے قرضے لیے جا رہے یہ ارب پتی لوگون کا بجٹ ہے پاکستان کا مکمل قرضہ 22کھرب ہو چکا ہے اس حکومت نے پاکستان کا ٹیکس بیس کم کیا ہے میں نے سنا ہے کہ چیئرمین ایف بی آر طارق پاشا استعفیٰ دے رہے ہیں انہوں نے اپنے سر پر ہاتھ رکھا ہوا ہے کہ اس بجٹ کا دفاع کیسے کیا جائے،حکومت بتائے ووٹ کو عزت دو کے
اشتہاروں پر کتنا خرچ ہوا یہ صرف اشتہاری حکومت رہ گئی ہے، عوامی پیسے سے انتخابی مہم چلائی جا رہی ہے،الیکشن جیتنے کیلئے بجٹ پیش کیا جا رہاہے حکومت کو جولائی میں یورو بانڈ کے اڈھائی بلین ڈالر ادا کرنے ہیں، حکومت نے پی ایس ڈی پی 25 فیصد کم کیا ہے حکومت نے کس سے پوچھ کے چار سال میں چار سو ارب کے قرضے لئے ہیں،یہ غیر آئینی اور غیر قانونی بجٹ ہے،تاہم پیپلز پارٹی ایسا کوئی اقدام نہیں اٹھائے گی جو آئین سے متصادم ہو، پیپلز پارٹی اس بجٹ کو مسترد کر چکی ہے،
سینیٹ میں حکومت کو واک اوور نہیں دیں گے یہ عوام دوست نہیں بلکہ عوام کیلئے تباہ کن بجٹ ہے، یہ بجٹ مفروضوں اور اعداد و شمار کے گورکھ ایجنڈے پر مبنی ہے،یہ کمزور بطخ جیسی حکومت ہے جس کی دونوں ٹانگیں لڑکھڑا رہی ہیں، انہوں نے ایسا بجٹ دیا جس سے حکومت اور اس کے دوستوں کی دس کی دس انگلیاں گھی میں ہیں، حکومت اس وقت اقتدار کے نشے میں ہے، مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں 3صوبائی وزرائے اعلیٰ نے احتجاجاً واک آؤٹ کیا تاہم کسی نے بھی
ان کی فکر نہیں کی،ملک میں معاشی ایمرجنسی کی صورتحال ہے،حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ 4.70کا بجٹ ہے تاہم روز اعداد و شمار بڑھ رہے ہیں، پاکستان بحرانوں سے گزرتا رہا ہے، ہم انہیں خبر دار کررہے ہیں، یہ بجٹ 3بی پر مشتمل ہے، پہلے بی کا مطلب قرض،قرض اور قرض لینا ہے، دوسرے بی کا مطلب ارب پتیوں کا بجٹ ہے، تیسرے بی کا مطلب بربادی والا بجٹ ہے، آئندہ حکومت کو یہ نہیں معلوم ہوگا کہ حکومتی معاملات کو کہاں سے فنانس کریں، حکومت اور ملک کرائسز بحران میں چلا جائے گا،
پھر ان ارب پتیوں پر بھی بوجھ آئے گا، سرمایہ داروں کو ریلیف ضرور دینا چاہیے تا کہ وہ روزگار پیدا کرسکیں، تاہم یہ کیسا ریلیف ہے جو صرف ایک مخصوص طبقے کو تقویت دے رہا ہے،حکومت کی جانب سے صرف لاہور کو چمکانے کا کام چل رہا ہے،200ممالک میں آبی قلت کے شکار ملکوں میں پاکستان کا شکار 7واں ملک ہے، آٹھ ٹریلین کی بدعنوانیاں رواں برس حکومت چھوڑ کربھاگ رہی ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے سینٹرسکندر میندرو نے کہا کہ حکومت کی جانب سے پیش کیا جانے والا
بجٹ کسی بھی طرح عوام کیلئے فائدہ مند نہیں ہے ، بجٹ میں غریب عوام کو کسی بھی قسم کا ریلیف نہیں دیا گیا بلکہ بوجھ ڈالا گیا۔ 34دنوں کی مہمان حکومت نے 365دنوں کا بجٹ پیش کردیا ہے، حکومت کا کہنا ہے کہ اس بجٹ میں نئی حکومت تبدیلیاں کرسکتی ہے پھر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ آئندہ حکومت بھی ہماری ہوگی اگر انہیں اتنا ہی یقین ہے کہ اب 4ماہ کا بجٹ پیش کردیتے اور پھر دوبارہ حکومت میں آکر پھر بجٹ دے دیتے۔اگر پاکستان ابھرتی ہوئی معیشتوں میں شامل ہے تو ہماری فی کس آمدنی
150نمبر پر کیوں ہے ملک میں غربت خواندگی کی شرح زچگی کے دوران شرح اموات کے اعداد وشمار خوشحالی کی علامات نہیں ہیں۔ حکومت ایک ہاتھ سے لوگوں کی تنخواؤں میں اضافہ کرتے ہیں تو دوسرے ہاتھ سے نوالہ اور اضافہ واپس لے رہیے ہیں۔ متفقہ طور پر منظور کی جانے والی 18ویں ترمیم کو رول بیک کرنی کی باتیں ہورہی ہیں۔ این ایف سی ایوارڈ صوبوں کو نہیں دیا جارہا ہے۔ آئین کے مطابق ہر 90روز کے بعد حکومت نے مشترکہ مفاد کونسل کا اجلاس بلانا تھا تاہم یہ دیکھا جائے گزشتہ پانچ سال میں کتنی مرتبہ یہ اجلاس بلایا گیا۔