منگل‬‮ ، 11 جون‬‮ 2024 

سابق چیف جسٹس آف پاکستان نے فوجی وردی کے سامنے جھکنے سے انکار کرکے پاکستانی سیاست اور اس کی تاریخ کے ساتھ کیا کیا؟ یہ انکار سابق آرمی چیف کے زوال کا سبب کیوں بنا؟

datetime 26  اپریل‬‮  2018

اسلام آباد (نیوز ڈیسک) معروف کالم نگار جمیل مرغز نے اپنے کالم میں لکھا کہ کبھی کبھی ایک جرات مندانہ انکارسے تاریخ کا رخ تبدیل ہو جاتا ہے‘جر منی کے چانسلر ولی برانڈت نے اوریانا فلاسی سے کہا کہ ’’جب کوئی فرد ایک مخصوص صورتحال میں ایک صحیح قدم اٹھا لے تواسی وقت تا ریخ اپنا رخ تبدیل کر لیتی ہے‘‘۔جب کسی شخص یا روایت کو کو ئی چیلنج کرنے والا نہ ہو تو اس کو چیلنج کر نے والا اصل میں تاریخ کا پہیہ گھمانے کی کوشش کر رہا ہو تا ہے‘ تاریخ میں ایسے واقعات مل جاتے ہیں

جب کسی کے ’’جرات مندانہ انکار‘‘سے کہیں قدرت کی مشینری کا گیئر بدل جاتا ہے ا ور تاریخ کا راستہ تبدیل ہو جاتا ہے۔اساطیری داستانوں کے ہیرو‘جس کو سب سے پہلا سیاسی قیدی بھی کہا جاتا ہے‘پروموتھیوس کو دیوتاؤں نے منع کیا تھا کہ وہ انسانوں کو آگ نہ دے کیونکہ آگ صرف دیوتاؤں کے استعمال کے لیے ہے اور انسان آگ کے استعمال کے قابل نہیں‘ پروموتھیوس نے اس حکم کو ماننے سے انکار کردیا‘اس نے دیوتاؤں سے چوری کرکے آگ انسانوں کو دے دی‘ اور انسان پر ترقی کے دروازے کھل گئے‘اس جرم کی پاداش میں پروموتھیوس کو کوہ الپس کی چوٹی پر باندھ دیا گیا‘دن بھر عقاب اس کا دل اور بدن نوچتے ہیں لیکن رات کو وہ پھر زندہ ہوجاتا ہے اور صبح پھر عذاب سے گزرتا ہے اور یہ عذاب قیامت تک اس پر نازل رہے گا۔ہماری تاریخ میں میں بھی طاقتور کے سامنے انکار کرنے کی مثال موجود ہے۔جنوبی افریقہ میں سفید فاموں نے بدتریں نسلی امتیاز (aparthied) پر مبنی حکومت قائم کی تھی‘ ملک کے اصلی مالکان سیاہ فام لوگوں کو بد ترین ظلم اور نسلی امتیاز کا نشانہ بنایا جاتا‘ بیرسٹر موہن داس کرم چند گاندھی وہاں پر وکالت کرتے تھے‘ ایک دن وہ ایک پارک میں بنچ پر بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے‘ اچانک دو سپاہی آئے اور ان سے کہا کہ تم نے گیٹ پر بورڈ نہیں پڑھا‘ بورڈ پر لکھا تھا کہ ’’کتوں اور سیاہ فام لوگوں کا داخلہ منع ہے

‘‘ ((Blacks and dogs are not allowed۔ انھوں نے کہا لیکن میں انسان ہوں نہ میں کتا ہوں اور نہ سیاہ فام‘ انھوں نے کہا کہ تم نے اپنا چہرہ دیکھا ہے کالے کلوٹے فوراً یہاں سے باہر نکل جاؤ‘ ا نہوں نے بات سنی ان سنی کر دی اور اخبار پڑھنے لگا‘ سپاہی زبر دستی ان کو اٹھانے کی کوشش کر تے لیکن وہ بنچ کے ساتھ چمٹ جاتا‘ مار پیٹ کے بعد دوبارہ اٹھ کر کپڑے جھاڑ تا اور اخبار کے مطالعے میں مصروف ہو جاتا‘ انھوں نے خود کہا ہے ’’اس واقعے نے مجھے عدم تشدد کی راہ بھی دکھا دی کہ

اگر ارادہ مضبوط ہو تو تشدد کے بغیر بھی انسان اپنا مقصد حاصل کر سکتا ہے‘‘۔ کہتے ہیں کہ اس واقعہ کے بعد وہاں کے سیاہ فام باشندوں نے جگہ جگہ سفید فاموں کے بنائے ہو ئے قوانین کی خلاف ورزیاں شروع کر دیں‘اس طرح جنوبی افریقہ کی آ زادی کی بنیاد گاندھی کی ایک چھوٹی سی جرات رندانہ سے پڑی۔یکم دسمبر1955ء امریکہ کے شہر منٹگمری میں ایک سیاہ فام خاتون روزا پارکس کلیو لینڈ ایو نیو پر ایک بس میں گھر جارہی تھی‘ راستے میں ایک سفید فام گاڑی میں سوار ہوا تو

سفید فاموں کے لیے مخصوص نشستوں میں کوئی سیٹ خالی نہیں تھی‘ کنڈکٹر نے اس سیاہ فام خاتون سے جو سیاہ فاموں کے لیے مخصوص نشستوں پر بیٹھی تھیں کہا کہ اٹھ کر سفید فام شخص کے لیے جگہ خالی کرے اور خود سب سے پچھلی نشست پر چلی جائے کیونکہ یہ ریاست البامہ کا قانون تھا لیکن اس خاتون نے سیٹ چھوڑنے سے انکار کر دیا اس پر بڑی لے دے ہو ئی‘ کنڈکٹر نے پولیس بلائی جو روزا کو گرفتار کرکے لے گئی‘عدالت نے اس کو دس ڈالر جرمانہ کیا‘ جب سیاہ فاموں کو اس واقعہ کی اطلاع ملی

تو ایک ہنگامہ کھڑا ہو گیا‘ 380 دن تک شہر کے ٹرانسپورٹ سسٹم کابائیکاٹ کیا گیا‘عظیم سیاہ فام رہنما ڈاکٹر مارٹن لو تھر کنگ جونیئر اس تحریک کی رہنمائی کر رہے تھے۔ ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ کی زیر صدار ت نسلی امتیاز کے خاتمے کے لیے ایک تنظیم MIA بنائی گئی‘ اس تحریک کے نتیجے میں نومبر 1956ء میں فیڈرل کورٹ نے یہ قانون ختم کر دیا‘ پورے ملک میں یہ تحریک پھیل گئی اور آ خر کار امریکہ میں سیاہ فاموں کے خلاف تمام امتیازی قوانین کا خاتمہ کر دیا گیا‘

ان کو امریکہ کے برابر شہریوں کا درجہ دیا گیا اور تمام آئینی حقوق حاصل ہو گئے‘ اس دن کو امریکہ میں بنیادی حقوق کے دن (Civil Rights Day) کے طور پر منایا جاتا ہے‘ا ک سیاہ فام خاتون نے ایک دفعہ روزا پارکس سے کہاکہ ’’جب آپ بیٹھتی ہیں تو ہم سب آپ کے احترام میں کھڑے ہوجاتے ہیں‘‘ اس عظیم خاتون کے انکار نے تاریخ کا رخ موڑ دیا‘ امریکہ اسی ایک انکار کی وجہ سے آج ایک مہذب ملک ہونے پر فخر کرتا اور دوسروں کو بنیادی حقوق کی تعلیم دیتا ہے۔ 9مارچ2007ء کادن بھی تاریخ کے

صفحات پر رقم ہو چکا ہے‘ اس مبارک دن چیف جسٹس آف پاکستان جناب افتخار چوہدری نے فوجی وردی کے سامنے جھکنے سے انکار کرکے پاکستانی سیاست اور اس کی تاریخ کا رخ موڑ دیا‘ فوجی وردیوں کے نرغے میں استعفا دینے سے انکار کردیا‘یہ انکار جنرل صاحب کے زوال کا سبب بنا‘‘نپولین نے کہا تھا کہ ’’جنگ کے دوران ایسے لمحات آجاتے ہیں ’جب تھوڑی سی بہتر حکمت عملی فتح دلاسکتی ہے۔ قدیم عیسائی عقائد اور بطلیموسی نظریے کے مطابق‘زمین کائنات کا مرکز تھی اور

سورج اس کے گرد گردش کرتا ہوا رات کو خدا کے حضور دن بھر کی رپورٹ پیش کرتا اور صبح پھر اپنی ڈیوٹی یعنی زمین کے گرد گردش کا سفر شروع کرتا‘ اٹلی کے سائنسدان برونو نے اپنی کتاب میں اس نظریے کی مخالفت کی اور کوپر نیکس کے اس نظریے کو صحیح قرار دیا کہ سورج نظام شمسی کا مرکز ہے اور زمین اور دوسرے سیارے اس کے گرد گردش میں ہیں‘کیتھولک کلیسا کی مذہبی عدالت نے اس پر کفر کا فتوی لگایا اور اس کو 8 سال تک قید میں رکھنے کے بعد‘ اپنی کتاب کے ساتھ زندہ جلادیا

اور اسی طرح اس کے شاگرد گلیلیو کو بھی دوربین کی ایجاد اور برونو کے خیالات کی حمایت پر سزائے موت کا حکم سنایا‘ اس بے چارے نے معافی مانگ کر جان بچائی‘400 سال بعد 1992ء میں پوپ نے عیسائی غلطی تسلیم کی اور گلیلیو سے معافی مانگی‘ برونو کے عیسائی پادریوں سے معافی مانگنے سے انکار نے دنیا پر سائنسی ایجادات اور کائنات کے رازوں کے دروازے کھول دیے اور ان واقعات نے حقیقت میں یورپ کے دور جاہلیت کو ختم کرنے اور نشاط ثانیہ یا ’’Renaissance’’کے دروازے کھول دیے۔جناب سراج الحق نے کہا ہے کہ ’’چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں تحریک انصاف نے کہا کہ اوپر سے حکم ملا ہے کہ ووٹ صادق سنجرانی کو دینا ہے۔اس بیان سے بلی تھیلی سے باہر آگئی۔آج پاکستان کی سیاسی صورت حال دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیوں سے کوئی انکار ہوا ہے اور اس نافرمانی کی سزا مسلم لیگ اور خاص کر میاں نواز شریف کو دی جا رہی ہے‘ ان کو ہر ہفتے نا اہل قرار دیا جاتا ہے اور اب تو ان کو تاحیات نا اہل قرار دے دیا گیا حالانکہ ڈاکو‘ چور اور زانی کو بھی صرف پانچ سال کے لیے نا اہل قرار دیا جاتا ہے‘ پس پردہ رہ کر حکومتیں بنانے اور بگاڑنے والوں نے بڑی ہوشیاری سے اپنا کھیل شروع کر دیا ہے۔ ویسے ہمسایوں کے ساتھ بہتر تعلقات‘دہشتگردوں کا خاتمہ اور سول بالادستی کے مسائل‘ سول ملٹری تعلقات کی کشیدگی کا باعث بنتے ہیں‘ شاید اب بھی یہ مسئلہ درپیش ہو۔



کالم



یونیورسٹیوں کی کیا ضرروت ہے؟


پورڈو (Purdue) امریکی ریاست انڈیانا کا چھوٹا سا قصبہ…

کھوپڑیوں کے مینار

1750ء تک فرانس میں صنعت کاروں‘ تاجروں اور بیوپاریوں…

سنگ دِل محبوب

بابر اعوان ملک کے نام ور وکیل‘ سیاست دان اور…

ہم بھی

پہلے دن بجلی بند ہو گئی‘ نیشنل گرڈ ٹرپ کر گیا…

صرف ایک زبان سے

میرے پاس چند دن قبل جرمنی سے ایک صاحب تشریف لائے‘…

آل مجاہد کالونی

یہ آج سے چھ سال پرانی بات ہے‘ میرے ایک دوست کسی…

ٹینگ ٹانگ

مجھے چند دن قبل کسی دوست نے لاہور کے ایک پاگل…

ایک نئی طرز کا فراڈ

عرفان صاحب میرے پرانے دوست ہیں‘ یہ کراچی میں…

فرح گوگی بھی لے لیں

میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں‘ فرض کریں آپ ایک بڑے…

آئوٹ آف دی باکس

کان پور بھارتی ریاست اترپردیش کا بڑا نڈسٹریل…

ریاست کو کیا کرنا چاہیے؟

عثمانی بادشاہ سلطان سلیمان کے دور میں ایک بار…