اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) جمعیت علماء اسلام(ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ پاکستان کو آئینی اور دستوری شناخت سے دور کرنے کی کوشش کریں گے تو جس جمہوریت کی خواہشمند ہیں وہ نہیں ملے گی ٗووٹ کی عزت پر کوئی اختلاف نہیں ٗنواز شریف نے کسی ادارے کو کب چھیڑا ہے ؟کہتے ہیں کہ تاحیات نااہلی ہے، ہم مسلمان ٗ جج بھی مسلمان ہیں، ہمارا دین اصلاح کا موقع دیتا ہے۔
منگل کویہاں مسلم لیگ (ن) کے زیر اہتمام منعقدہ ووٹ کو عزت دوسیمینار سے خطاب کر تے ہوئے جمعیت علماء اسلام(ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہم نے 70سالوں میں قومی ریاستی اور حکومتی سطح پر بیش بہا غلطیاں کی ہیں،جب ہندوستان تقسیم ہو رہا تھا تو یہ طے تھا کہ بھارت اور پاکستان دونوں میں 1935کے ایکٹ کے تحت دو ایوانی مقننہ ہو گا، ہندوستان میں دو سالوں کے اندر اپنے ملک کو آئین دیا جبکہ ہم اس ملک کو آئین نہ دے سکے، بڑے محلات میں حکومتیں بنتی اور بگڑتی تھیں، ہم نے پہلے انتخابات میں عوام کے ووٹ اور اکثریت کو تسلیم نہیں کیا اور ملک کو دولخت کردیا، پہلے عبوری حکومتیں قائم ہوئیں، عبوری دور میں بلوچستان کی حکومت پر شب خون مارا گیا اور پاکستان کی نوزائیدہ جمہوریت انارکی کا شکار ہو گئی۔انہوں نے کہاکہ1977میں بھی مینڈیٹ چوری کیا گیا، ہم مسلسل بحرانوں سے گزر رہے ہیں، ہم پاکستان کو آئینی اور دستوری شناخت سے دور کرنے کی کوشش کریں گے تو جس جمہوریت کی خواہشمند ہیں وہ نہیں ملے گی، ووٹ کی عزت پر کوئی اختلاف نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ضیاء الحق کے مارشل لاء میں افغانستان کی جنگ کا آغاز ہوا تو اس جنگ میں ہم کودے اور اس کو اپنی جنگ قرار دیا، تاریخ نے اسے امریکہ اور روس جنگ قرار دیا،، افغانستان میں ایک بار پھر امریکہ کی ضرورت بننا پڑا، 20ویں صدی میں دنیا میں برطانیہ کی تھی،آج امریکہ کا ایجنڈا بھی واضح ہے وہ کہتا ہے کہ 21ویں صدی میری ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ووٹ کی طاقت سے ہم فتوحات حاصل کرتے ہیں عام آدمی کی پرچی نے فیصلہ کرنا ہے ، ہم نے ووٹ کی پرچی سے سیاست کو مستحکم کرنا ہے ۔ مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ ، عدلیہ ہماری ہے، ملک کو عدلیہ کی ضرورت ہے، عدلیہ کے بغیر ملک کا نظام نہیں چلا کرتا، اگر ایک جج اپنے طور پر محسوس کرے کہ میرے سامنے کھڑے دو فریقوں میں سے کوئی مجھے جانبدار تصور کرے تو اس احتمال کے ساتھ وہ جج مقدمہ نہیں سنتا۔
انہوں نے کہا کہ اگر ایک فضاء بن جائے توہر چھوٹا بڑا یہ تاثر لے لے کہ اس وقت میرا جج فریق ہے تو صاف ظاہر ہے کہ وہ فیصلہ ملک کے اندر بھی متنازعہ ہو گااور دنیا کی کسی بھی عدالت میں وہ فیصلہ بطور نظیر نہیں پیش کیا جا سکتا، جسٹس افتخار چوہدری کے وقت بھی میں نے سوال اٹھایا تھا کہ جو کچھ ہم کر رہے ہیں یہ عدلیہ کی بحالی کی جنگ ہے یا ججوں کی بحالی کی،ہم عدلیہ کی آزادی کے قائل ہیں، جج اگر معیار پر پورا نہیں اترتا تو ایسے جج کو اپنے خلاف بھی سوموٹو لینا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ خبریں چھپتی ہیں کہ اداروں سے تصادم کا رویہ ختم کریں، نواز شریف نے کسی ادارے کو کب چھیڑا ہے میرے نوٹس میں تو یہ بات نہیں آئی،کہتے ہیں کہ تاحیات نااہلی ہے، ہم مسلمان ہیں، جج بھی مسلمان ہیں، ہمارا دین چاہے کوئی بھی گناہ کرے تب بھی اس کو اصلاح کا موقع دیتا ہے، میں نے بڑی کوشش کی کہ پانامہ کو سمجھوں کہ یہ بحران کہاں سے آیا، پوری دنیا میں کسی اور ملک میں یہ سیاسی بحران کی وجہ نہیں بنا صرف ہمارے ہی ملک میں کیوں بنا؟۔
انہوں نے کہا کہ ملک غیر مستحکم ہو جائے تو اس کو تقسیم کرنے کے حالات خود بخود بن جاتے ہیں، افغانستان میں 3قوتیں پاکستان کے خلاف متحد ہیں، امریکہ، بھارت اور افغان حکومت خود، انڈیا اور امریکہ آپ کے خلاف ایک ہو چکے ہیں، چین کے نئے اقتصادی ویژن کا پہلا زینہ سی پیک کی صورت میں ہے ، پاکستان میں سب سے زیادہ جس کی پانامہ میں کمپنیاں ہیں وہ تو تحریک انصاف میں شامل ہو رہے ہیں، عدلیہ انصاف کیلئے کردار ادا کر رہی ہے یا تحریک انصاف کیلئے کردار ادا کر رہی ہے،
عدلیہ پر حرف نہیں آنا چاہیے، مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ملک میں دہشت گردوں کے ہاتھوں جو بھی شہید ہوا میں اس پر سب کے برابر رویا ہوں لیکن آج مدرسوں کے بچوں کی شہادتوں پر ہمارے ساتھ رونے کیلئے کوئی تیار ہے؟ ۔ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے نیشنل پا رٹی کے صدر میر حاصل خان بزنجو نے کہا کہ جو ملک کی صورتحال ہے اس کو سنجیدہ طور پر حل کرنے کی ضرورت ہے،جو مشکلات ریاست کو پیش آرہی ہیں بدقسمتی ہے کہ بہت کم لوگ اس کا اطلاق کر رہے ہیں،
آج پاکستان کو ہم مکمل طور پر علیحدگی کی طرف لے کر جا رہے ہیں، آج ہم یہ ضرور کہتے ہیں کہ اتنے سویلین اور اتنے فوج کے لوگ شہید ہوئے اور ملین ڈالرز دہشت گردی کے خلاف خرچ کئے اور اوپر سے آتا ہے کہ آپ دہشت گرد پال رہے ہیں، کسی ریاست کیلئے اس سے زیادہ مشکل حالات اور کون سے ہو سکتے ہیں، پچھلے تین دن سے ایران کے بارڈر سے فائرنگ ہو رہی ہے، آپ جو کہہ رہے ہیں کوئی سننے کیلئے تیار نہیں، دنیا میں ایسی جگہوں کے معاملات اور اقوام کے لوگ اتحاد کی طرف جاتے ہیں،
ہمارے ہاں ہم نے پوری سوسائیٹی کو پولارائز کر دیا ہے،پوری سوسائٹی ایک دوسرے کے دست و گریباں ہے، بین الاقوامی طور پر ریاست کے لئے چیلنج بن رہے ہیں، کیا ایسے حالات میں ملک اس قسم کی چیزیں برداشت کر سکتا ہے،پی ٹی آئی والا ہمارے گلے میں پڑ گیا، ساری سیاست کا حلیہ ہی بگاڑ دیا، یہ کلچر ہمارا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ عوام کہہ رہی ہے کہ جوڈیشری کو نواز شریف کے علاوہ کوئی اور نظر نہیں آرہا، چیف جسٹس صدیق الفاروق سے پوچھتے ہیں کہ آپ کو کس نے لگایا ہے،
انہوں نے جواب دیا کہ مجھے نواز شریف نے لگایا ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ کیوں لگایا ہے، انہوں نے کہا کہ جب آپ کو چیف جسٹس لگایا ہے تو مجھے بھی لگایا گیا ہے، میر حاصل بزنجو نے کہا کہ ہم عدلیہ کا احترام کرتے ہیں مگر جوڈیشری اپنا احترام خود تو کرے، چیف جسٹس کا کراچی سے بیان آتا ہے کہ ساری رات مجھے مچھروں نے کاٹا ہے ٗمجھے ایک ہفتے میں کراچی صاف کر کے دو۔حاصل بزنجو نے کہا کہ ہمارے اداروں کو حقیقت پر آنا چاہیے ٗدوسری جنگ عظیم کے بعدجرمن لیڈر شپ بیٹھی اور فیصلہ کیا کہ دنیا کچھ بھی کہے ہر جرمنی کو تعمیر کریں گے۔
عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما میاں افتخار حسین نے کہا کہ پاکستان بنتے ہی ہماری حکومت ختم کی گئی، ہمارے ساڑھے چھ سو لوگ شہید ہوئے، کسی کو خیال نہیں آیا کہ انہیں کیوں مارا جا رہا ہے، ہم روئے بھی اور چلائے بھی ، خیبرپختونخوا میں ہماری حکومت بنی تو اس کو بھی ختم کر دیا گیا، کسی نے ہمارے حق میں نہیں بولا،ہمیں جتنی بھی مار پڑے ووٹ کے تقدس کیلئے ہم کھڑے رہیں گے، پہلے شاید ہمارا وہم تھا کہ پنجاب کے وزیراعظم کو چھیڑا نہیں جا سکتا وہ بھی دن دیکھنا پڑا کہ پنجاب کے وزیراعظم کو بھی کرسی چھوڑنی پڑی،
ووٹ کے تقدس سے بات اب آگے بڑھ چکی ہے، انہوں نے کہا کہ سکرپٹ بہت پہلے سے لکھا گیا جو بھی ہوا وہ بہت افسوسناک ہے، خطرے کی گھنٹی بھی ہے،پارلیمنٹرین کو کس بلاء نے کاٹا تھا کہ وہ عدالت میں جائے، جب ہم خود اختیار کسی کو دیتے ہیں تو گلہ کس سے ہے، ہم نواز شریف کے اتحادی نہیں لیکن اس مسئلے پر ان کے ساتھ ہیں، عدالت ایسے فیصلوں میں نہ پڑے جس سے اس کی حیثیت متنازعہ نہ ہو، جہاں ایم پی اے اور سینیٹر بکتا ہو تو بے چارے ووٹروں کو کیا کہنا۔ انہوں نے کہا کہ جو وفاداری نہیں نبھاتا اسے دوبارہ ٹکٹ کیسے ملتا ہے،
ہم خود بکاؤ مال کو سر پر چڑھا دیتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ یہ بک گیا، ہم خود بھی تو ووٹ کے تقدس کو برقرار رکھیں، صرف سیاستدان ہی پاکستان کا مقدمہ لڑ سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں عوامی نیشنل پارٹی کو کسی صورت نہیں چھوڑوں گا، پارٹی کی خاطر جان بھی دیں گے، پشتون تحفظ موومنٹ کے تمام مطالبات آئین کے دائرے میں آتے ہیں، نقیب اللہ کو قتل کیا گیا اور بیان آیا کہ حکومت کی پالیسی ہے، برملا کہہ رہے ہیں کہ حکومت کی پالیسی ہے، ایسی پالیسی پر لعنت ہو، را? آنوار اکیلا نہیں ہے، وہ دبئی جا رہا تھا کہ اسے ایف آئی اے نے پکڑ لیا، وہ کس سے بھاگا؟اس کی وہ مجال کہ وہ سپریم کورٹ کو خط لکھے کہ وزیراعظم کو تو پیشی بھگتنی پڑے اور وہ خط لکھے،
وہ پیش بھی ہوا تو وی آئی پی پروٹوکول ملا اسے،راؤ انوار کے پیچھے نیٹ ورک تھا اس نیٹ ورک کو بھی سزا دی جائے، کوئی مسئلہ گولی سے حل نہیں ہوتا، مذاکرات سے ہی مسائل حل ہوں گے، ہم نے مذاکرات کئے، میرے جوان بیٹے پر دہشت گردوں نے گولیاں برسائیں، میرے جیتے جی میرے لخت جگر کو چھین لیا گیا، میرے گھر پر بھی حملہ ہوا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نہ ہوتے تو شائد آپ ووٹ کے تقدس کی بات نہ کرتے، ہم جمہوریت کے ساتھی ہیں اس کے خلاف سازش نہیں کر سکتے، میاں صاحب کو جتنا دیوار کے ساتھ لگا رہے ہیں ان کی اتنی ہی عزت بڑھ رہی ہے، وہ اس لئے سزائیں دے رہے ہیں کہ یہ عوام سے کٹ جائیں، آپ میاں نواز شریف کو مزید خطرہ بھی ہے اور عزت میں اضافے کا بھی امکان ہے، ایسی رابطہ کمیٹی ہونی چاہیے جو تمام جماعتوں سے رابطہ کرے۔