اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)چند دنوں قبل سینئر صحافیوں اور اینکرز کی آرمی چیف سے ملاقات کا اہتمام کیا گیا تھا، آئی ایس پی آر کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کے مطابق اس ملاقات میں ہونیوالی تمام گفتگو آف دی ریکارڈ تھی تاہم اس ملاقات میں ہونے والی گفتگو کے مندرجات منظر عام پر آئے اور میڈیا کی زینت بھی بنے۔ اسی حوالے سے نامور کالم نگار محمد اسلم خان اپنے
ایک کالم میں لکھتے ہیں ’تردید‘ اور ’وضاحت‘ صحافت کا دلچسپ جزو لازم ہیں۔ اکثر ’تردید‘ کا مطلب ’تصدیق‘ لیاجاتا ہے اور وضاحت سے مزید ’سوال‘ پیدا ہونا تاریخ رہی ہے۔ جواب کے نتیجے میں مزید سوالات جنم لے لیتے ہیں۔ بسااوقات وضاحت ایسی پیچیدہ پہیلی بن جاتی ہے جو ’سمجھنے‘ کی نہ ’سمجھانے‘ کی ہوتی ہے۔ مسلح افواج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور کی پریس کانفرنس میں اٹھائے گئے نکات سے نئی بحث شروع ہوگئی ہے کئی نئے سوالات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ میجر جنرل آصف غفور نے کہاکہ ’آرمی چیف کی میڈیا اینکرز سے ملاقات آف دی ریکارڈ تھی جس میں سکیورٹی صورتحال پر بات چیت کی گئی۔ کچھ اینکرز نے باہر جاکر بات کی اور کچھ لوگ جو ملاقات میں موجود بھی نہیں تھے انہوں نے کالم لکھے۔ ‘ 30سے زائد جن ’محبّان‘ کو چْن چْن کر حلقہ یاراں کی شکل دی گئی۔ ان کی وابستگیوں اور کالمانہ مجاہدہ کی داستان زبان زدعام ہے۔ بنگلہ دیش سے چین تک جو ہر مقام و محفل میں پاکستان پر برسانے کے لئے پتھر ساتھ لئے پھرتے ہیں۔ پاک فوج سے جنہیں خداواسطے کا بیر ہے۔ جو بھارت سے دوستی کی اس حد تک جانے کے لئے دانشوری کی ’گنگا جمنا‘ بہاتے ہیں۔جو بدترین ذہنی مفلسی اور دانشورانہ پھکڑ پن کی انتہا ہے۔ یہ وہ ’جنتا‘ ہے جو سی پیک منصوبہ کو پاکستان پر چین کا غلبہ گردانتی ہے۔
انتہا پسندی کے بارے میں مودی اور امریکا کے حالیہ بیانیہ کی پرچارک ہے جس کا بنیادی نشانہ پاک فوج، قومی ادارے اور پاکستانی وجود کی سلامتی ہے۔ جن کا ایک ہی فلسفہ ہے جو بدلتے چہروں کے ساتھ الفاظ بھی لباس کی طرح بدلتارہتا ہے۔ جن کی مے تو نہیں بدلتی، بوتل بدلتی رہتی ہے۔ لیبل بدلتے رہتے ہیں۔ ان میں سے ایک بدبخت’ دریدہ دہن تو ایسا بھی تھا جس کا غصہ ٹھنڈا ہونے میں نہیں آرہا تھا
جو الزام تراشی اور غلیظ گفتگوکو آزادی ٔ اظہار قرار دیتا ہے جس نے آداب مہمان نوازی کو بالائے طاق رکھ کر اپنے مہربان چینی میزبانوں پر بھارتی الزامات کے تیر برساتا رہا۔ چینی دفتر خارجہ کی بریفنگ میں’’کہانی کار‘‘ پاکستان کے خلاف کھل کر سامنے آگیا بلکہ تمام روایات پامال کرتے ہوئے اپنے مہربان چینی میزبانوں پر بھی گھسے پٹے الزامات لگانے سے باز نہیں آیا۔ ایک پراپیگنڈے
کو بیجنگ کے چینی دفتر خارجہ میں آگے بڑھاتے ہوئے سوال داغا کہ چین نے جیش محمد کے مولانا مسعوداظہر کے بارے میں سلامتی کونسل کی قرارداد کو دوبارہ ویٹو کرکے دہشت گردی کے معاملے میں دْہرے معیار اور منافقت کا مظاہرہ نہیں کیا-کیا چین بھی “گڈ طالبان’ بَیڈ طالبان” والے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے فلسفے پر عمل درآمد نہیں کر رہا’کیونکہ برکس اعلامیے میں چین نے ہر قسم کی
دہشت گردی کی مذمت کی تھی جس پرچینی دفتر خارجہ کے قونصلر’ ڈائریکٹر ایشیا ڈویژن نے جواب دیا کہ چین مولانا مسعود اظہر کو دہشت گرد نہیں سمجھتا۔ برکس رکن ممالک تنظیم کے دہشت گردی کے خلاف اعلامیے کے بعد مولانا مسعود کیخلاف قرارداد ویٹو کرنا ہماری پالیسی کا تضاد نہیں ہے کیونکہ برکس تنظیم کے ارکان نے ایسا کوئی معاہدہ نہیں کیا۔اپنے ضمیر کو کروڑوں ڈالروں کے
عوض بھارتی شیطانوں کے پاس گروی رکھ دینے والے گڑبالو کو پھر بھی چین و قرار نہیں آیا اوراس نے پاکستان پر بھارتی ترکش کا سب سے زہریلا تیر چلاتے ہوئے پینترا بدل کر ایک بار پھر پاکستان پر کاری وار کرنے کی ناپاک جسارت کرتے ہوئے استفسار کیا کہ کیا چین ایسٹ ترکمانستان میں بے چینی کے حوالے پاکستان کے کردار سے مطمئن ہے اس پر چینی سفارت کار نے دوبارہ اس کو
مایوس کرتے ہوئے بتایا کہ چین ایسٹ ترکمانستان میں دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے تعاون اور کردار سے نا صرف مطمئن ہے بلکہ ہم پاکستان سے دوستی پر فخر کرتے ہیں۔یہ سوالات دہلی میں کئے جاتے تو اس کا جواز تھا۔ بیجنگ میں کسی نام نہاد پاکستانی کا اپنے مہربان چینی میزبانوں کو پاکستان سے حق دوستی پر رگیدنا’ کٹہرے میں کھڑا کرنا چہ معنی دارد؟؟اسی طرح ارمچی کمیونسٹ پارٹی آف چائنہ
کی مقامی قیادت نے پاکستان سے ٹیکسٹائیل کے شعبے میں سیکھنے کا ذکر کیا۔پاکستان کا ذکر اچھے لفظوں میں ہو یہ وظیفہ خوار’کہانی کارکیسے برداشت کرسکتا تھا۔ اس نے مہمان کی تمام روایات کو یکسر پامال کرتے ہوئے نہایت ڈھٹائی اور بے شرمی سے اپنے مہربان میزبان چینیوں پر دھاوا بولتے ہوئے الزام لگایا کہ تم ہمارے ڈیزائن چوری کرکے 5 ہزار کا سوٹ پاکستان میں 5 سو روپے میں
بیچتے ہو ہماری ٹیکسٹائیل کی صنعت تباہ کر رہے ہو، اس نے میزبانوں کو شرمندہ کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی وہ میزبانوں کوچور پاکستانی صنعت کے غم میں نہیں قرار دے رہا تھا پاکستان سے محبت کے مظاہرے اور جابجا اظہار محبت نے نفرت کی آگ میں بھسم کر رکھا تھا’ اور اس کو آرمی چیف کی آف دی ریکارڈ بریفنگ میں بطور خصوصی مدعو کیا گیا تھا اور اس کا غصہ ٹھنڈا ہونے میں نہیں آرہا تھا۔
اب ترجمان مسلح افواج کی گفتگو سمجھنے کے لئے نکتہ وار غور کرتے ہیں۔ میجر جنرل آصف غفور کی بات اگر صحیح رپورٹ ہوئی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تبصرہ اب صرف اس معاملے اور بات پر ہوگا جس میں لکھنے والا خود موجود ہو۔یہ ایسا نرالا پہلو سیکھنے کو ملا ہے جو چاردہائیاں گزرنے کوہوئے، علم میں آنے سے رہ گیا تھا۔چلو سیکھنے کا مرحلہ شوق تو کبھی نہ طے ہونے کی دعا کی جاتی ہے۔
ہمیں بھی سیکھنے کا موقع ملا۔ صحافت کا تمام دارومدار ہی صحافی کی معلومات پر ہوتا ہے جس کا بیشتر حصہ ’ذرائع‘ کی آڑ میں میسرافراد پرمشتمل ہوتا ہے۔بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ افراد ذرائع کا لبادہ اوڑھے بغیر سچ یا جھوٹ کو ببانک دہل اپنے نام سے بیان کرنے کی جرات دکھائیں۔ دنیا کی تاریخ بھری پڑی ہے جس میں ’زمینی حقائق‘ کا انکشاف ’سْنی سنائی‘ پر ہوا۔ پاناما کا حالیہ قضیہ تو
شاید تازہ ترین مثال کہی جاسکتی ہے۔ دنیا میں سب سے بڑا چیلنج ہمیشہ ’اسٹیبلشمنٹ‘ کی صورت قلم کاری کی راہ میں آیا ہے۔ اس میں بھی جانبداری کی تفریق، تقسیم سے دامن آلودہ ہونے سے بچنے والوں، اپنی ریاست، نظریہ کے پہریداروں، اپنے ضمیر کی عدالت میں نہ جھکنے والوں کی زندگی اور بھی تلخ رہی ہے۔ جن ’عالی مقام‘ ہستیوں نے اس خفیہ بریفنگ میں شرکت کی۔ اگر وہ اپنے خیالات زریں
باہر نکل کر بیان نہ فرماتے تو شاید یہ بات ’کْو بَہ کْو نہ پھیلتی‘ اور اس پر تبصرہ آرائی کی نوبت بھی نہ آتی۔صحافتی دنیا میں ’ ناقابل اشاعت‘ معلومات ’سینہ گزٹ‘ کے طورپر یا پھر ’استادانہ اشاروں کنایوں‘ کی صورت بھی قرطاس پر منتقل ہوکر رہتی ہیں۔ صحافی کے دل، ذہن اور پیٹ میں بات، خیال یا تبصرہ آئے،وہ عوام تک نہ پہنچے یہ گھوڑے اور گھاس والی بات تصور ہوتی ہے۔
’آف دی ریکارڈ‘ کبھی ’آف دی ریکارڈ‘ رہ نہیں سکا۔ ہمیشہ ’آن دی ریکارڈ‘ بن کر ہی رہا۔ صحافت تو کھیل ہی باخبر رہنے اور باخبر رکھنے کا ہے یہاں تو قاری ہوتا ہے جس کو باخبر کرنا ہی ’دیہاڑی‘ ہے۔ البتہ پرویز مشرف دور میں صحافیانہ فیشن پریڈ کا آغاز ہواتھا۔ ’کل وقتی‘ سازندوں نے اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کا اظہار کرنے میں اس وقت کوئی کمی چھوڑی تھی، نہ آج ان کے فن کی پرکاری
میں کوئی کجی واقع ہوئی ہے۔ صد تعریف کے قابل ہیں یہ لوگ اور اس سے زیادہ وہ جو ان کی آبیاری میں حکومت کے بدل جانے سے نہیں چوکے۔ ہمارا قومی مزاج ایسا ہی بن گیا ہے۔ ’سوگنڈے سو ڈنڈے‘ کا پنجابی محاورہ اس معاملے میں لاجواب اور بے مثل ہے۔ ’عطار کے لونڈے سے دوائی‘ لینے کو ہی عقل مندی اور دانائی سمجھا جاتا ہے۔ منع کرنے یا ٹوکنے والے ہمیشہ سے معتوب ٹھہرتے ہیں۔
اب دشمن کی زبان بولنے والوں کی پزیرائی نیا اصول قرارپایا ہے۔ وفاشعاروں کی توہین کی نئی روایت استوار کی جارہی ہے۔ آف دی ریکارڈ بریفنگ ختم ہوتے ہی تفصیلات چھن چھن کر باہر آنے لگیں دوست احباب اندر کی کہانی سنا رہے تھے اس وقت اس کالم نگار نے یہ سوال اٹھایا کہ کسی بھی غیر موجود پر آف دی ریکارڈ کی ممانعت کا کوئی اخلاقی یا قانونی جواز نہیں ہے خاص طور پر بریفنگ کے
ایسے حصے جن کا قومی سلامتی کے نازک اور حساس امور سے کوئی تعلق نہیں ہے۔