اسلام آباد( آن لائن ) سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سعودی عرب میں سعودی آجروں کی جانب سے پاکستانی مزدوروں کی بھرتیوں کی تعداد میں 11 فیصد کمی ہوئی ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک نے ایشیا میں مزدوروں کی منتقلی سے متعلق اپنی نئی رپورٹ میں بتایا کہ 2016 میں پاکستانی مزدوروں کی بھرتیوں میں 11 فیصد کمی ہوئی اور یہ 4 لاکھ 60 ہزار تک رہی لیکن اس کے باوجود 2005 کے بعد سے 2016 میں سعودی عرب جانے والے
پاکستانیوں کے لیے سب سے مصروف ترین سال رہا۔رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ 2017 میں سعودی عرب میں پاکستان کی بطور مرکزی افرادی قوت کو بنگلہ دیش نے تبدیل کردیا۔اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی مزدوروں کی تعداد میں کمی کا سلسلہ جاری رہا اور اکتوبر 2017 کے اعداد و شمار اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہیں کہ صرف ساڑھے 4 لاکھ افراد پاکستان سے بیرون ملک ملازمت کے لیے گئے۔دوسری جانب بنگلہ دیشی مزدوروں کی تعداد میں اضافے کی ایک وجہ 6 سال سے بھرتیوں پر پابندیوں کا خاتمہ تھا، جو سال 2016 کے وسط میں ہٹائی گئی تھی۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ جنوب مشرقی ایشیائی اقوام کی تنظیم (آسیان) ممالک کے لیے پاکستانی ملازمین کی تعداد میں کمی ہوئی اور 2016-2015 میں یہ تعداد تقریبا 50 فیصد تک کم ہوگئی اور 2015 کے 20 ہزار 369 افراد کے مقابلے میں صرف 10 ہزار 743 پاکستانی ملازمین آسیان ممالک میں گئے۔ان افراد میں سے 10 ہزار 625 ملائیشیا، 85 افراد برونئی دارالسلام اور صرف 33 لوگ سنگاپور گئے۔اے ڈی بی کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ سعودی عرب اور ملائیشیا میں پالیسی کی تبدیلی نے مزدوروں کی بھرتیوں کے رجحان کو کم کرنے میں تقویت دی اور 2016 میں خطے کے 12 مرکزی ایشیائی ممالک سے تقریبا 50 لاکھ ملازمین کو جگہ دی گئی
جبکہ یہ تعداد گزشتہ برس کے مقابلے میں 8 فیصد کم تھی۔اس کے ساتھ ساتھ اگر ایشیا میں غیر اقتصادی تعاون اور ترقی کی تنظیم ( او ای سی ڈی ) کے ممالک کو دیکھا جائے تو خلیجی تعاون کونسل ( جی سی سی) کے ممالک نے 2015 کے مقابلے میں 2016 میں 5 لاکھ 28 ہزار کم ایشیائی ملازمین بھرتی کیے۔ان ممالک میں سعودی عرب کی بات کی جائے تو 2016 میں وہاں اس تعداد میں 9 فیصد کمی ہوئی لیکن اس کے باوجود وہ ایشیائی
مزدوروں کے لیے پہلی ترجیح رہی لیکن ایک سال میں ملک کی معاشی صورتحال اور دیگر وجوہات کے باعث 10 لاکھ سے زائد ایشیائی غیر ملکی ملازمین میں کمی ہوئی۔رپورٹ کے مطابق ایشیا میں غیر اقتصادی تعاون اور ترقی کی تنظیم والے ممالک کی بات کی جائے تو ایشیائی مہاجرین کا رجحان سب سے زیادہ جرمنی کی طرف رہا اور ایک سال کے دوران یہ ملک 7 ویں سے چوتھے نمبر پر آگیا اور کینیڈا، آسٹریلیا یا برطانیہ کے بجائے
جرمنی نے سب سے زیادہ ایشیائی مہاجرین کو جگہ دی۔2015 میں جرمنی نے 2 لاکھ 9 ہزار نئے ایشیائی مہاجرین کو جگہ دی جو گزشتہ برس کے مقابلے میں تقریبا ایک لاکھ زائد تھا اور پاکستان سے زیادہ افغانستان کے لوگ وہاں گئے۔اسی سال جرمنی جانے والے افغان باشندوں کی تعداد 85 ہزار جبکہ پاکستانیوں کی تعداد 24 ہزار تھی اور ان میں سے زیادہ تر سیاسی پناہ کی بنیاد پر گئے تھے۔تاہم ان دونوں ممالک کے علاوہ بھی ایشیا سے مہاجرین کی بڑی تعداد جرمنی گئی اور یہ تعداد مسلسل بڑھ کر 15 فیصد تک پہنچ گئی۔