اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا مالیاتی سکینڈل، دبئی میں جائیدادیں بنانے والے پاکستانی بری طرح پھنس گئے، منی لانڈرنگ کے ذریعے کیسے ملکی زرمبادلہ دبئی منتقل کیا گیا، بڑے بڑے لیڈر اور اہم شخصیات ملوث نکلیں، بانی ایم کیو ایم الطاف حسین کی بیٹی کے نام پر دبئی میں جائیدادوں کا انکشاف، ایم کیو ایم کے لیڈر فاروق ستار، مصطفیٰ کمال ، بہادر آباد گروپ
میں شامل رہنما دبئی میں رقم منتقل کرتے رہے، ایم کیو ایم رہنما کیف الوریٰ کے انکشافات نے سب کو ہلا کر رکھ دیا،کراچی سے بھتہ،تاوان اور دیگر غیر قانونی رقوم دبئی میں روزانہ کی بنیاد پر منتقل کی جاتی ہیں، دبئی کی حکومت نے جائیدادیں بنانے والے پاکستانیوں کے نام تو دئیے تاہم تفصیلات شیئر نہ کیں، وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی کے مشیر برائے خزانہ مفتاح اسماعیل نے ملائیشین ماڈل پر ملکی دولت بیرون ملک منتقل کرنے والوں کو قانونی تحفظ دینے کیلئے ایمنسٹی سکیم نکالنے کا منصوبہ بنا لیا، کراچی سے دبئی روزانہ کی بنیاد پر کئی افراد سوٹ کیسز میں بھاری رقوم بھر کر دبئی جاتے ہیں اور پھر واپس آتے ہیں اور اس دوران دبئی میں رقم ڈراپ کر دی جاتی ہے، ان افراد کیلئے کھیپئے کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔نجی ٹی وی نیو نیوز کے پروگرام ’’نیو ایٹ 5‘‘میں تہلکہ خیز انکشافات سامنے آگئے۔ تفصیلات کے مطابق نجی ٹی وی نیو نیوز کے پروگرام ’’نیو ایٹ 5‘‘کے اینکر فرحان بشیر نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دبئی میں جیسے پاکستانیوں نے جائیدادیں بنائی ہیںجس پر سپریم کورٹ کے حکم پر ایف آئی اے اس کی تحقیقات کرنے جا رہی ہے۔ 2300کے قریب پاکستانی ایسے ہیں جنہوں نے دبئی میں پراپرٹیز خریدی ہیں اور انہوں نے ان تحقیقات میں یہ بتانا ہے کہ انہوں نے یہ پراپرٹیز دبئی میں کن ذرائع سے بنائی تھیںاور پاکستان سے رقوم کن ذرائع سے
دبئی منتقل کی گئیں۔ فرحان بشیر کا کہنا تھا کہ منی لانڈرنگ کا عفریت دنیا بھر میں پھیلا ہوا ہے تاہم دنیا کے مہذب ملکوں جیسے امریکہ اور برطانیہ میں منی لانڈرنگ کو قتل سے بھی بڑا جرم قرار دیا گیا ہے کیونکہ وہاں سمجھا جاتا ہے کہ قتل میں تو ایک شخص کو موت کے گھاٹ اتارا جاتا ہے مگر منی لانڈرنگ میں پوری قوم کی معیشت کی پیٹھ میں چھرا گھونپا جاتا ہے۔ امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی
رپورٹ کے مطابق پاکستان سے 10ارب ڈالر ہر سال منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرون ملک منتقل کر دئیے جاتے ہیں۔ فرحان بشیر نے انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ سرفراز مرچنٹ کی درخواست پر جب ایف آئی اے نے ایم کیو ایم کے رہنما کیف الوریٰ سے تفتیش کی تو انہوں نے بھی کئی رہنمائوں کے نام بیان کئے ہیںجن میں چاہے وہ ایم کیو ایم بہادر آباد گروپ ہو ، چاہے فاروق ستار یا مصطفیٰ کمال ۔
کیف الوریٰ نے کئی اہم ناموں کا ذکر کیا ہے جو کہ الطاف حسین لندن میں منی لانڈرنگ کرتے رہے ہیںاور اس نیٹ ورک میں فاروق ستار، ممبر قومی اسمبلی ساجد احمد، ریحان ظفر، عدنان احمد ان کو بھی بلایا گیاایف آئی اے کی جانب سے اور مصطفیٰ کمال کا بھی نام لیا جا رہا ہے جبکہ کمال صدیقی، رفیق راجپوت،محمد شاہد کو بھی منی لانڈرنگ کی تحقیقات کیلئے ایف آئی اے نے طلب کر لیا ہے۔
پروگرام میں نجی ٹی وی نیو نیوز کے لاہور کے ڈپٹی بیورو چیف ایاز شجاع کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے تو دبئی میں پاکستانیوں کی جائیدادوں پر تو ابھی نوٹس لیا ہے تاہم اس سے قبل 2015میں ایف آئی اے کراچی نے کارروائی شروع کی تھی اور متعدد خطوط وزارت خارجہ کو ارسال کئے تھے جن میں کہا گیا تھا کہ ہماری اطلاعات کے مطابق دبئی میں اربوں روپے کی جائیدادیں اتنے پاکستانیوں کی موجود ہیں
آپ دبئی حکومت سے رابطہ کر کے ہمیں اس کی تفصیلات فراہم کریں تاکہ ہم ان سے دبئی میں خریدی گئی جائیدادوں سے متعلق تحقیقات کر سکیں کہ دبئی میں خریدی گئی ان کی جائیدادیں کن ذرائع سے حاصل کردہ رقوم سے خریدی گئیں اور اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ ایاز شجاع کا کہنا تھا کہ سٹیٹ بینک کا قانون ہے کہ کوئی بھی پاکستانی بیرون ملک
اگر کسی بھی قسم کا اثاثہ بنائے گا تو اسے وہ اثاثہ ڈکلیئر کرنا پڑتا ہے سٹیٹ بینک اور ایف بی آر کے سامنے بصورت دیگران کے خلاف ایک ایکٹ کے تحت کارروائی ہوتی ہے۔ مگر ہماری وزارت خارجہ کا کوئی انٹرسٹ ہی نہیں کہ پاکستان سے ہر سال 10ارب ڈالر باہر منی لانڈرنگ کے ذریعے جا رہا ہے ۔ ایاز شجاع نے انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ 10ارب ڈالر تو امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی
رپورٹ کے مطابق ہر سال ملک سے منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرون ممالک بھیجا جاتا ہے جبکہ یہ رقم اس سے کہیں زیادہ ہے۔ ایاز شجاع کا کہنا تھا کہ وزارت خارجہ نے کسی بھی قسم کی اس معاملے میں دلچسپی نہیں دکھائی اور تین سال سے یہ معاملہ اسی طرح ٹھپ پڑا ہے۔ ایاز شجاع کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے نوٹس لینے پر ایف آئی اے ایک بار پھر متحرک ہوئی اور لسٹیں سامنے آئیں
جن میں لاہور کے 193لوگ ، فیصل آباد کے 11افراد کے خلاف انکوائری شروع ہو چکی ہےجبکہ گوجرانوالہ میں 5افراد کے خلاف انکوائری شروع ہو چکی ہے۔ ایاز شجاع نے مزید انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ اب اس معاملے میں ایف آئی اے ایک مرتبہ پھر رک گئی ہے انہوں نے جن افراد کو نوٹسز جاری کئے تھے دبئی میں جائیدادوں کے حوالے سے کہ وہ آکر اپنی دبئی میں جائیدادوں سے
متعلق تفصیلات فراہم کریں کہ انہوںنے یہ جائیدادیں کیسی خریدیں اور یہ پیسہ کیسے باہر گیا وہ لوگ بڑے بڑے وکیل لے کر آگئے ہیں ۔ وہ وکیل ان کے بیان دے رہے ہیں کہ ایسی کسی جائیداد کا وہاں کوئی وجود ہی نہیں کیونکہ دبئی حکومت نے دنیا کو دکھانے کیلئے کہ ہم دہشتگردوں کی مالی مدد نہیں کرتے اور نہ ہی ان کو فنانشل سہولت فراہم کرتے ہوئے غیر قانونی رقوم کو دبئی میں ویلکم کرتے ہیں۔
دبئی حکومت نے جائیدادوں کے مالک پاکستانیوں کے ناموں کی لسٹیں تو فراہم کر دیں مگر ان لسٹوں میں ان کی جائیدادوں اور بینک اکائونٹس کا کہیں بھی ذکر نہیں اور وزارت خارجہ سے بار بار رابطے کے باوجود ایف آئی اے کو اس حوالے سے کوئی انفارمیشن مل رہی ہے اور نہ ہی وزارت خارجہ اس حوالے سے ان کیساتھ کوئی تعاون کر رہی ہے۔ اس دوران پروگرام میں نجی ٹی وی نیو نیوز کے
نمائندہ کراچی راجہ کامران بھی بذریعہ فون کال شامل ہو گئے جنہوں نے انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ دبئی میں جائیدادیں رکھنے والے افراد میں سے 450افرادکا تعلق کراچی سے ہے مگر حقیقت میں کراچی سے تعلق رکھنے والے افراد کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ کراچی سے بھتہ خوری کی رقم بھی دبئی منتقل ہوتی رہی ہے۔ ایاز شجاع نے اس موقع پر انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ
نے دبئی لیکس کی تحقیقات کا تو حکم دے دیا مگر حکومتی ادارے اس حوالے سے سنجیدہ نہیں ، یہ صرف ایک فائل ورک اور سرگرمی دکھانے کیلئے سب کیا جا رہا ہے۔ راجہ کامران نے انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ کراچی سے روزانہ کی بنیاد پر اربوں روپے اور ڈالرز ائیرپورٹ اور دیگر جگہوں سے بیرون ملک منتقل کئے جا رہے ہیں۔ راجہ کامران کا کہنا تھا کہ کراچی کی صورتحال منی لانڈرنگ
کے حوالے سے انتہائی گھمبیرہے، کراچی سے بھتہ خوری کی وجہ سے بہت سے بلڈرز اور کاروباری افراد نے اپنا پیسہ بیرون ملک منتقل کیا اور خود دبئی منتقل ہو گئے۔ راجہ کامران نے مزید انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ کراچی میں اغوا برائے تاوان کی رقوم بھی دبئی میں وصول کی جاتی تھیں جس سے دبئی میں جائیدادیں خریدی گئیں۔ اس حوالے سے بانی ایم کیو ایم الطاف حسین کا نام بھی سامنے آرہا ہے،
الطاف حسین کی بیٹی افزا کے نام پر دبئی میںبہت بڑی جائیداد موجود ہے ۔راجہ کامران نے تہلکہ خیز انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ کراچی میں ایک بہت بڑا نیٹ ورک موجود ہے جو روزانہ کی بنیاد پر رقوم اور زرمبادلہ منی لانڈرنگ کے ذریعہ بیرون ملک منتقل کر رہا ہے اور پھر یہی رقوم دوبارہ ملک میں لائی جاتی ہیں۔ راجہ کامران کا کہنا تھا کہ اگر اس کیس کو پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا
مالیاتی سکینڈل کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ نجی ٹی وی نیو نیوز کے نمائندہ کراچی کا کہنا تھا کہ حکومت اب ایک اور کام کرنے جا رہی ہے ۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے مشیر برائے خزانہ مفتاح اسماعیل ایک اور ایمنسٹی سکیم لے کرآرہے ہیں جس کے بارے میں انہوں نے اعتراف کیا ہے ۔ راجہ کامران کا کہنا تھا کہ یہ ایمنسٹی سکیم انڈونیشن ماڈل پر لائی جا رہی ہے۔ اس ایمنسٹی سکیم کے
تحت جائیداد ڈکلیئر کرنے پر آپ کو ٹیکس وصولی 3فیصد سے لیکر 10فیصد تک کی جائے گی۔ مگر اس حوالے سے خدو خال تاحال واضح نہیں ہوئے ہیں۔ راجہ کامران کا کہنا تھا کہ اب جب کہ ایسے افراد قانون کے شکنجے میں آگئے ہیں جنہوں نے ملک کو لوٹا اور ملکی دولت بیرون ملک بھجوائی ایسے موقع پر ایمنسٹی سکیم لائی جا رہی ہے جو کہ ایک قابل ستائش عمل ہر گز نہیں ہو سکتا۔ اب پوری دنیا
میں غیر قانونی رقوم ڈکلیئر کرنا ہونگی اور اس حوالے سے اگر پاکستان فائدہ اٹھانا چاہے تو اٹھا سکتا ہے۔ پروگرام اینکر فرحان بشیر نے انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کے 156ممالک کے مالیاتی غیر قانونی سرگرمیوں کے تدارک کیلئے بنائی گئے ڈیپارٹمنٹ کے گروپ نے پاکستان کی نمائندگی کی درخواست صرف اس لئے مسترد کر دی کہ ان کا کہنا تھا کہ آپ کے ملکی قوانین ایسے ہیں جو بجائے
منی لانڈرنگ کو روکنے کے منی لانڈرنگ میں معاون و مددگار ثابت ہو رہے ہیں۔ اس موقع پر راجہ کامران کا کہنا تھا کہ 1990میں پاکستان میں زرمبادلہ لانے کیلئے جو ریفارمز لائی گئیں تھیں اور اس کیلئے جو ایکٹ بنایا گیا تھا وہی سب سے بڑی رکاوٹ ہے، آپ جتنا مرضی پیسہ ملک میں لے آئیں کوئی آپ سے پوچھنےو الا نہیں۔ پاکستان میں موجود قوانین کو اس حوالے سے موثر بنانے کی ضرورت ہے
اور ان قوانین پر عملدرآمد ہوتا نظر آنا ضروری ہے۔ پنجاب سے حوالے اور ہنڈی کے ذریعے بیرون ملک بھاری رقوم کی منتقلی روکنے کے حوالے سے بات کرتےایاز شجاع کا کہنا تھا کہ حکومت اس حوالے سے مکمل طورپر ناکام ہے۔ انہوں نے اس حوالے سے ایک کیس کا حوالہ بھی دیا۔ ایاز شجاع نے واقعہ سناتے ہوئے کہا کہ لاہور میں پراچہ ایکس چینج پر گزشتہ دنوں ایف آئی کارپوریٹ سرکل کی
ایک ٹیم نے ریڈ کیا تھا ۔پراچہ ایکس چینج والوں نے الزام عائد کیا کہ ہماری گاڑی کی ڈگی میں 13کروڑ روپے موجود تھے جو ایف آئی اے کی ٹیم اٹھا کر لے گئی جس کا ریکارڈ میں کوئی ذکر نہیں۔ پراچہ ایکس چینج کے اندر موجود رقم تو کیمروں کی مدد سے گنی گئی تھی اور وہ ساری رقم سرکاری خزانے میں جمع کروا دی گئی تھی۔ جب تفتیشی افسران نے ان سے اس حوالے سے پوچھا کہ آپ نے
اس وقت یہ پوائنٹ کیوں نہیں اٹھایاکہ آپ کی گاڑی کی ڈگی میں 13کروڑ روپے تھے ، 13کروڑ روپے کوئی معمولی رقم تو نہیں کہ آپ نے گاڑی کی ڈگی میں رکھے اور ایف آئی اے کی ٹیم نے اٹھا لئے۔ بجائے اس کے کہ پراچہ ایکسچینج کے خلاف کارروائی ہوتی آج وہ ایف آئی اے کی ٹیم کئی ماہ گزرنے کے بعدپراچہ ایکسچنج والوں کے لگائے الزام کی انکوائریاں بھگتتی پھر رہی ہے۔
ایاز شجاع نے انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایکسچینجز بہت طاقتور ہیں ، خانانی اینڈ کالیا کی مثال آپ کے سامنے موجود ہے۔ اس ملک کے بڑے بڑے لیڈر، صنعتکار اور کاروباری حضرات نے ان ایکسچینجز کے ذریعے اربوں روپے بیرون ملک بھجوائے۔ اس موقع پر پروگرام کے اینکر فرحان بشیر نے انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ اس صورتحال کی وجہ سے پاکستان کو بیل آئوٹ پیکیج کی
جانب جانا پڑ گیا تھا۔اس موقع پر راجہ کامران نے ایک بار پھر انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ فاروق ستار، مصطفیٰ کمال اور دیگر ایم کیو ایم رہنما کیف الوریٰ کے انکشافات کے مطابق منی لانڈرنگ میں ملوث رہے ہیں اور یہ کئی بیرون ملک دورے کرتے رہے ہیں اور ہر دورے پر ملک سے جاتے وقت یہ قانون کے مطابق 10ہزار ڈالر ساتھ لے جانا شو کرتے تھے جبکہ اس سے کئی گنا زیادہ رقم ان
کے ساتھ بیرون منتقل ہوتی تھی اور اس وقت یہ بڑے لیڈر تھے اور ان کو کوئی بھی نہیں چھو سکتا تھا۔ راجہ کامران کا کہنا تھا کہ پاکستان سے نہ صرف بینکاری چینل کے ذریعے بیرون ملک رقوم منتقل کی گئیں بلکہ ذاتی سامان کے بریف کیس اور سوٹ کیسز میں بھی بھاری پیمانے پر رقوم بیرون ملک منتقل کی جاتی رہی ہیں اور یہ عمل تاحال جاری ہے۔ اس حوالے سے کئی افراد اس گھنائونے
کام میں ملوث ہیں جن کو کھیپئے کہا جاتا ہے اور وہ روزانہ کی بنیاد پر کراچی سے دبئی آتے جاتے ہیں اور اس دوران دبئی میں رقم ڈراپ کرتے ہیں۔