اسلام آباد (نیوز ڈیسک) جج خود نہیں بولتے، ان کے فیصلے بولتے ہیں۔ یہ ایک پرانی کہاوت ہے۔ مگر یہ کہاوت آج دنیا بھر کی عدلیہ کا ایک مسلمہ اصول ہے۔یہ بات معروف کالم نگار بیرسٹر حمید باشانی نے اپنے کالم میں کہی انہوں نے کہا کہ اپنے کالم میں کہا کہ کچھ فیصلے قوموں اور ملکوں کی تاریخ کا رخ بدل کر رکھ دیتے ہیں‘ اور اپنے اثرات کے اعتبار سے اتنے اہم ہوتے ہیں کہ آنے والی کئی نسلوں تک ان پر بحث و مباحثہ جاری رہتا ہے۔ پاکستان میں اس کی ایک بڑی مثال مولوی تمیزالدین کیس کا فیصلہ ہے۔
مولوی تمیزالدین کیس پاکستان کی آئینی، سیاسی اور عدالتی تاریخ کا اہم ترین کیس ہے۔ اس فیصلے نے پاکستان کی تاریخ کا رخ بدل کر رکھ دیا۔ اس کہانی کا آغاز 1953 سے ہوتا ہے، جب گورنر جنرل غلام محمد نے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کو ہٹا کر محمد علی بوگرہ کو وزیر اعظم بنا دیا۔ خواجہ ناظم الدین کو اسمبلی کا اعتماد حاصل تھا، اس کے باوجود ان کو ہٹا دیا گیا۔ آئندہ کسی ایسی صورت حال سے بچنے کے لیے اس قانون ساز اسمبلی نے گورنر جنرل کے اختیارات کو محدود کرنے کے لیے ترمیمی بل پیش کیا۔ اس بل کے تحت چونکہ گورنر جنرل کے اختیارات کو محدود کرنے کی کوشش کی گئی تھی؛ چنانچہ گورنر جنرل اور اسمبلی کے درمیان اختلافات بڑھ گئے، اور گورنر جنرل نے قانون ساز اسمبلی کو ہی برطرف کر دیا۔ مولوی تمیزالدین اس وقت اس اسمبلی کے صدر تھے۔ انہوں نے اس فیصلے کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر دی۔ سندھ ہائی کورٹ نے مولوی تمیزالدین کے حق میں ایک جاندار اور خوبصورت فیصلہ دیا، اور گورنر کے اقدام کو غیر آئینی قرار دے دیا۔ اس فیصلے کے خلاف فیڈرل کورٹ میں اپیل دائر کر دی گئی۔ جسٹس منیر اس وقت فیڈرل کورٹ کے چیف جسٹس تھے۔ ان کی سربراہی میں کیس کی سماعت ہوئی۔ ہائی کورٹ کے فیصلے کو معطل کر دیا گیا‘ اور گورنر جنرل کی طرف سے قانون ساز اسمبلی کو تحلیل کرنے کے فیصلے کو درست قرار دیا گیا۔
فیصلے کے حق میں جسٹس منیر کی دلیل یہ تھی کہ پاکستان ابھی تک ایک مکمل آزاد ریاست نہیں، بلکہ ڈومینین ہے؛ چنانچہ اقتدار اعلیٰ، تاج برطانیہ کے پاس ہے‘ اس لیے قانون ساز اسمبلی کے پاس اقتدارِ اعلیٰ نہیں، بلکہ گورنر جنرل کے پاس ہے، جو کراؤن کا نمائندہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر اس قانون ساز اسمبلی کے اراکین یہ سمجھتے ہیں کہ اقتدار اعلیٰ ان کے پاس ہے، تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ فیصلے کے لیے جسٹس منیر نے قدیم رومن، انگلش اور کامن لاء کے اصولوں کو استعمال کیا۔
ان میں بریکٹن میکسم یعنی اصول سرِ فہرست تھا۔ اس اصول کے مطابق جو کچھ قانونی نہیں ہے، وہ ضرورت کے وقت قانونی ہو سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ گورنر کے اقدام کو نظریہ ضرورت کے مطابق قانونی سمجھا جا سکتا ہے۔ دوسرا میکسم یا اصول انہوں نے جیننگ سے لیا۔ اس اصول کے مطابق دنیا میں سب سے بڑا قانون عوام کی بہبود کا قانون ہے۔ اس فیصلے سے پاکستان میں نظریہ ضرورت کا آغاز باقاعدہ قانونی اصول کے طور پر ہوا، جو آنے والے برسوں میں تسلسل سے جمہوریت کے خلاف اور آمریت کے حق میں استعمال ہوتا رہا۔ اس فیصلے کے صرف تین سال بعد ایوب خان کے مارشل لاء کو اس قانون کے تحت درست قرار دیا گیا۔ اس کیس میں جسٹس منیر کو ہی دوبارہ نظریہ ضرورت اور اس کی تشریح کا موقع میسر آیا۔