بدھ‬‮ ، 27 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

پولیس کمسن بچیوں کی لاشیں ملنے پر عوام کو مطمئن کرنے کیلئے جعلی مقابلوں میں قاتل قرار دیکر بندے مارتی رہی، عمران کا ڈی این اے میچ ہونے پر حقیقت کھل کر سامنے آگئی، بے گناہوں کی ہلاکتیں قصور پولیس کے گلے پڑگئیں

datetime 25  جنوری‬‮  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)قصور میں کمسن بچیوں کے قتل اور لاشیں ملنے پر عوام کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کیلئے پولیس کی جانب سے جعلی مقابلوں میں بندے مارے جانے کا انکشاف، عوام کو مطمئن کرنے کیلئے قاتل قرار دیتی رہی، ایمان فاطمہ کا قاتل قرار دیکر مدثر نامی شخص کو جعلی مقابلے میں پار کرنے کے معاملے کی ازسر نو تحقیقات شروع۔ تفصیلات کے مطابق قصور میں

کمسن بچیوں کے اغوا اور زیادتی کے بعد قتل کی پے درپے وارداتوں پر پولیس نے عوامی احتجاج اور غم و غصے کو قابو کرنے کیلئے انوکھا طریقہ اپنا رکھا تھا جس سے اس کی روایتی سستی، بے شرمی اور نا اہلی کے ساتھ سفاکیت بھی کھل کر سامنے آئی ہے۔گزشتہ سال پولیس نے فروری کے مہینے میں مدثر حسین نامی ایک شخص کو گھر سے بلا کر قتل کردیا اور اس پر الزام عائد کیا گیا کہ وہ اس سے قبل قتل ہونے والی سات بچیوں کے اغواءاور قتل میں ملوث ہے۔ واضح رہے کہ متاثرہ بچیوں میں پانچ سالہ ایمان فاطمہ بھی تھی جس کے قتل کے شبہ میں بے گناہ مدثر کو ہلاک کردیا گیا۔روزنامہ خبریں کی رپورٹ کے مطابق مدثر کے قتل یا مبینہ پولیس مقابلہ کی ازسرنوتحقیقات کی جائیں گی تاہم قصور کے شہریوں کا پولیس کے خلاف غم و غصہ اور ناراضی بدستور برقرار ہے کیونکہ ملزم کی گرفتاری کے بعد چھٹنے والی دھند نے اس امر کو روز روشن کی طرح عیاں کردیا ہے کہ قصور میں یکے بعد دیگرے معصوم بچیوں کو اغواءاور زیادتی کے بعد قتل کیا جاتا رہا مگر پولیس کی مجرمانہ غفلت سے قاتلوں کے حوصلے بڑھتے رہے اور ایک درجن معصوم بچیاں لقمہ اجمل بن گئیں۔ رپورٹ کے مطابق یہ امر بھی سامنے آیا ہے کہ بستی قادر آباد سے جس بچی کو اغواءکیاگیا اور جب اغواءکے بعد بچی کی نعش ملی اور عوام سڑکوں پر نکلے تو گرفتار کئے گئے ایک اور ملزم کو مبینہ مقابلہ

میں ہلاک کردیا گیا حالانکہ یہ دونوں بچیاں حال ہی میں آنے والے ڈی این اے میں ان مقتولین میں شامل ہیں جن کا ڈی این اے ملزم عمران علی سے ملا ہے اور پولیس دو بندوں کو یکے بعد دیگرے مارتے وقت یہ دعوے کررہی تھی کہ ان دو بچیوں کے قاتل جعلی مقابلے میں مارے جانے والے لوگ ہیں اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پولیس دو سال تک عوام کی آنکھیوں میں دھول جھونکتی رہی ہے

اور نہ صرف پیشہ وارانہ غفلت کا ارتکاب کیا بلکہ بے گناہ لوگوں کو بھی جعلی مقابلوں میں ماورائے عدالت قتل کیا گیا۔

موضوعات:



کالم



شیطان کے ایجنٹ


’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)

آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…