اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)کراچی میں مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک ہونے والا جنوبی وزیرستان کے نوجوان نقیب اللہ محسود کی جنوبی وزیرستان کے آبائی علاقے لدھا میں تدفین، جنازے میں محسود، برکی، وزیر اور داوڑ قبائل کی شرکت، کراچی میں سپر ہائی وے پر مظاہرہ، سپر ہائی وے ہر طرح کی ٹریفک کیلئے بلاک، رائو انوار کو عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ۔ تفصیلات کے مطابق
کراچی میں مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک ہونے والے جنوبی وزیرستان کے نوجوان نقیب اللہ محسود کی جنوبی وزیرستان میں اس کے آبائی علاقے لدھا میں تدفین کر دی گئی۔ جنازے میں محسود ، برکی ، وزیر اور داوڑ قبائل کے افراد نے کثیر تعداد میں شرکت کی ہے۔ دوسری جانب کراچی میں بھی نقیب اللہ محسود کی مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاکت کے خلاف سپرہائی وے پر مظاہرین کا احتجاج جاری ہے جس کے باعث سپر ہائی وے ہر طرح کی ٹریفک کیلئے بلاک کر دیا گیا ہے۔ مظاہرین کی جانب سے ایس ایس پی ملیر رائو انوار کو ان کے عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ 13جنوری کو ایک مبینہ پولیس مقابلے میں نقیب اللہ محسود کی ہلاکت کی خبرسامنے آئی تھی جس کے بعد نقیب اللہ محسود کے اہل خانہ اور عزیز و اقارب نے دعویٰ کیا تھا کہ 7جنوری کو پولیس نے نقیب اللہ محسود کو اٹھایا اور اس پر 13جنوری تک ٹارچر سیل میں تشدد کیا گیا جبکہ 13جنوری کو ایک مبینہ پولیس مقابلے میں اس کی ہلاکت کی خبر ملی۔ آج صبح ایس ایس پی ملیر رائو انوار آج پولیس مقابلے میں نقیب محسود ہلاکت کیس میں تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے پیش ہو گئے ہیں۔ تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیش ہونے سے قبل ایس ایس پی ملیر رائو انوار نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مجھے 100فیصد پتہ تھا کہ نقیب جرائم پیشہ ہے۔ نقیب محسود کے خلاف ثبوت موجود ہیں جنہیں پیش کروں گا۔
ان کا کہنا تھا کہ 2014میں نقیب محسود مفرور ہوااس کے خلاف تھانہ سچل میں مقدمہ درج ہے جبکہ نقیب نے تاوان کیلئے میمن تاجر کو اغوا بھی کیا جس کے بعد پولیس مقابلے میں نور عالم اور زاہد اللہ سمیت نقیب کے چار ساتھی مارے گئے۔ رائو انوار نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ میں نے حلیم عادل شیخ کے خلاف مقدمہ درج کیا جس پر پی ٹی آئی والے نقیب محسود کو بنیاد بنا کر میرے
خلاف سوشل میڈیا پر پروپیگنڈہ کر رہے ہیں۔جبکہ رائو انوار کی جانب سے مبینہ پولیس مقابلے میں مارے جانے والے نوجوان نقیب اللہ محسود پر دہشتگرد ہونے کے الزام کے بعد کیس کی تحقیقات کرنے والی ٹیم نے جیل میں قید کالعدم جماعت الاحرار کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان سے اس سے متعلق سوالات کرنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ تفتیشی اور فرانزک ٹیموں نے شاہ لطیف ٹائون بھی جانے کا فیصلہ کیا ہے۔