لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) قصور میں 7 سالہ بچی زینب امین کے قتل کے بعد کی جانے والی تحقیقات میں تہلکہ خیز انکشاف سامنے آیا ہے کہ زینب اور دیگر سات بچیوں کو زیادتی کے بعد قتل کی واردات میں ایک ہی شخص ملوث ہے۔انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب کیپٹن (ر) عارف نواز خان نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ زیادتی کے بعد قتل کے واقعات میں 227 کے قریب افراد کو شامل تفتیش کیا گیا اور ان میں سے 67 افراد کے ڈی این اے
ٹیسٹ لیے گئے لیکن کسی ایک بھی شخص کے ڈی این اے کی تصدیق نہیں ہو سکی۔آئی جی پنجاب نے بتایا کہ زینب اور اس سے پہلے 7 کیسز میں لیے گئے ڈی این اے سے یہ بات واضح ہوئی ہے کہ ایک ہی شخص نے یہ گھناؤنا جرم کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ کہنا درست نہیں ہے کہ ہمیں زینب قتل کیس میں 80 فیصد کامیابی حاصل ہو گئی ہے، جونہی اس کیس میں کوئی پیشرفت سامنے آئے گی تو اسے پوری قوم کے سامنے رکھیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ پولیس اس ملزم کے پیچھے ہے اور اپنی طرف سے کوششیں کر رہے ہیں، پرامید ہیں کہ اس معاملے کو جلدی حل کر لیں گے۔سی سی ٹی وی فوٹیج کے حوالے سے آئی جی پنجاب پولیس نے کہا کہ اس میں نظر آنے والی تصویر واضح نہیں تھی، اس تصویر کی کوالٹی کو مزید بہتر بنایا گیا لیکن ابھی بھی اس کی کوالٹی بہتر نہیں ہے۔خیال رہے کہ 4 جنوری کو اغواء کی گئی زینب کی لاش تین روز قبل قصور کے شہباز روڈ سے ملی تھی۔ اس واقعے کے بعد مشتعل مظاہرین نے سڑکیں بلاک کر دی تھیں اور ڈی سی آفس سمیت لیگی ایم پی اے کے ڈیرے پر بھی دھاوا بولا تھا۔ قصور میں 7 سالہ بچی زینب امین کے قتل کے بعد کی جانے والی تحقیقات میں تہلکہ خیز انکشاف سامنے آیا ہے کہ زینب اور دیگر سات بچیوں کو زیادتی کے بعد قتل کی واردات میں ایک ہی شخص ملوث ہے۔انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب کیپٹن (ر) عارف نواز خان نے کہا کہ زیادتی کے بعد قتل کے واقعات میں 227 کے قریب افراد کو شامل تفتیش کیا گیا اور ان میں سے 67 افراد کے ڈی این اے ٹیسٹ لیے گئے لیکن کسی ایک بھی شخص کے ڈی این اے کی تصدیق نہیں ہو سکی۔