اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) حکومت پاکستان نے ملک میں کام کرنے والی 21 بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز) کو اپنی سرگرمیاں ختم کرکے ملک سے جانے کا حکم دیا ہے۔ان بین الاقوامی تنظیموں کو دو سال قبل متعارف کرائے جانے سخت قوانین کے تحت خود کو دوبارہ رجسٹر نہ کرانے پر ملک سے جانے کا حکم دیا گیا۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق سرکاری عہدیداروں نے بتایا کہ حکومت کے اس فیصلے سے متعلق جن تنظیموں کو آگاہ کیا گیا
ان میں جورج سوروز کے خیراتی ادارے ٗاوپن سوسائٹی فاؤنڈیشن اور جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والی ایکشن ایڈ بھی شامل ہیں تاہم پابندی کی زد میں آنے والی تنظیموں کی مکمل فہرست فراہم نہیں کی گئی۔ان تنظیموں کو اپنے دفاتر بند کرنے اور ملک چھوڑنے کیلئے دو ماہ کا وقت دیا گیا ہے ٗعہدیداروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ حکومت دیگر 19 بین الاقوامی تنظیموں کی دستاویزات کی بھی جانچ پڑتال کر رہی ہے جس کے بعد ان سے متعلق کوئی حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔اوپن سوسائٹی فاؤنڈیشن کے ترجمان جوناتھن برچال نے وزارت داخلہ کی جانب سے گروپ کی دوبارہ رجسٹریشن سے انکار کا خط ملنے کی تصدیق کی تاہم انہوں نے مزید تفصیلات بتانے سے انکار کیا۔گروپ نے چند روزقبل اپنے بیان میں کہا تھا کہ وزارت داخلہ کی جانب سے انہیں اور دیگر تنظیموں کو 60 روز کے اندر پاکستان میں آپریشنز ختم کرنے حکم کے بعد اس کی وضاحت طلب کی گئی ۔بیان میں کہا گیا کہ 2015 میں پاکستان نے ملک میں کام کرنے والی تمام این جی اوز کو وزارت داخلہ میں خود کو رجسٹر کرانے کا حکم دیا تھا جس میں تنظیموں کو ان کی فنڈنگ کے اکاؤنٹس کی تفصیلات جمع کرانے کا عمل بھی شامل تھا۔اوپن سوسائٹی فاؤنڈیشن کی جانب سے کہا گیا کہ نومبر کے آخر میں وزارت داخلہ کی جانب سے درجن سے زائد بین الاقوامی این جی اوز کو خط لکھا گیا کہ ان کی رجسٹر کرنے کی درخواست مسترد ہوچکی ہے
تاہم اس کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی۔بیان کے مطابق اس حکم سے متاثر ہونے والی تنظیمیں 90 روز کے اندر درخواست دائر کر سکتی ہیں تاہم یہ واضح نہیں کہ یہ عمل کیسے ہوگا؟پاکستان ہیومینیٹیرین فورم ٗجو کئی بین الاقوامی امدادی گروپوں کی نمائندگی کرتا ہے کا کہنا تھا کہ ان کے کام سے پاکستان میں تقریباً 2 کروڑ 90 لاکھ افراد کو فائدہ پہنچتا ہے۔بیان میں کہا گیا کہ بین الاقوامی امدادی گروپوں نے 2016 میں فنڈنگ کے ذریعے ترقیاتی اور ایمرجنسی ریلیف پروگراموں کیلئے تقریباً 28 کروڑ 50 لاکھ ڈالرز خرچ کیے اور 5 ہزار مقامی افراد کو روزگار فراہم کیا۔