اسلام آباد (سی پی پی )سوشل میڈیا ایک ایسی دنیا ہے، جہاں ہر وقت کہیں نہ کہیں سے کوئی پیغام، آڈیو یا ویڈیو شیئر ہورہی ہوتی ہے اور دعوی سے کہا جاسکتا ہے کہ ان میں سے بیشتر جعلی ہوتی ہیں۔ ایسا ہی کچھ آج کل شاعر مشرق علامہ اقبال کی نظم ‘شکوہ’ کی آڈیو ریکارڈنگ کیساتھ بھی ہو رہا ہے۔اِن دنوں سوشل میڈیا پر شاعر مشرق
علامہ اقبال کی مشہور زمانہ نظم ‘شکوہ’ کی آڈیو ریکارڈنگ گردش کررہی ہے، جس کے بارے میں دعوی کیا جا رہا ہے کہ یہ علامہ اقبال کی آواز میں ہے۔یہ کلپ اس دعوے کے ساتھ پھیلائی گئی کہ پہلی بار علامہ اقبال کی کوئی آڈیو رکارڈنگ سامنے آئی ہے۔بس پھر کیا تھا جس کسی نے سنا، اس آڈیو کلپ کو ‘قومی فریضہ’ سمجھ کر آگے بڑھا دیا۔آڈیو کلپ کے وائرل ہونے کے بعد علامہ اقبال کے پوتے منیب اقبال نے لوگوں کی اس سادگی پر اپنا سر پکڑ لیا اور وضاحت جاری کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ یہ آڈیو کلپ علامہ اقبال کی آواز میں نہیں ہے۔منیب اقبال کا کہنا تھا کہ ساری دنیا سے لوگ مجھے میسجز کر رہے ہیں، لیکن یہ علامہ اقبال کی آڈیو نہیں ہے۔ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ جعلی چیزیں شیئر کرنے کے بجائے لوگوں کو صحیح طرح سے اقبال کے فرمودات پر عمل کرنا چاہیے۔یہاں سوال اٹھتا ہے کہ آخر اس کلپ میں سنائی دینے والی آواز کس کی ہے؟ تو یہاں بتاتے چلیں کہ جن صاحب کی ریکارڈنگ کو علامہ اقبال کی آواز کہہ کر پھیلایا گیا، وہ دراصل شکاگو میں مقیم جمال ناصر ہیں اور اپنا پسندیدہ کلام ترنم کے ساتھ انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کرنا ان کا پرانا شوق ہے۔جمال ناصر کا کہنا تھاکہ میں اس سے پہلے بھی اقبال کی نظمیں ترنم میں گاکر اپ لوڈ کرچکا ہوں، لیکن حال ہی میں کسی نے ’’شکوہ‘‘کو اس جھوٹ کے ساتھ انٹرنیٹ پر پھیلایا کہ یہ علاقہ اقبال کی آواز ہے اور پھر وہ وائرل ہوگئی۔علامہ اقبال کی جعلی آڈیو کلپ کا
وائرل ہونا تو محض ایک واقعہ ہے، سوشل میڈیا کے ذریعے دراصل افواہ سازی اور جعلی خبروں کی فیکٹریاں کھل گئی ہیں اور ان سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ ہر پیغام کی تصدیق ضرور کی جائے اور بغیر چھان بین کیے کسی بھی پیغام کو آگے نہ پہنچایا جائے۔