حکومت نے کل پانچ ہزار دو سو ستانوے فیڈرز کو لوڈ شیڈنگ فری قرار دے دیا جس کے بعد ملک کا بیشتر حصہ لوڈ شیڈنگ سے پاک ہو گیا‘ یہ واقعی حکومت کی بہت بڑی کامیابی ہے‘ ہم اس کامیابی پر حکومت کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں لیکن آج چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے کراچی میں کہا کہ دعویٰ کرنے والے عوام کو صاف پانی بھی نہیں دے سکے‘ چیف جسٹس صاف پانی سے متعلق پٹیشن کی سماعت کر رہے تھے‘
چیف جسٹس کو بتایا گیا کراچی کا 80‘ حیدر آباد کا 85‘ لاڑکانہ کا 88 اور شکار پور کا 78 فیصد پانی آلودہ ہے‘ دریاؤں میں ہسپتالوں‘ صنعتوں اور سیوریج کا گند ملا یا جارہا ہے‘ سندھ کے 29 اضلاع کے لوگ آلودہ پانی پی رہے ہیں‘اس کی وجہ سے سندھ کے 80 لاکھ لوگ ہیپاٹائٹس سی کے مریض ہیں۔چیف جسٹس یہ سن کر تڑپ اٹھے اور انہوں نے کہا زمین پر دو بڑی نعمتیں تھیں‘ ہوا اور پانی‘ ہم نے ان نعمتوں میں بھی خلل ڈال دیا‘ یہ سندھ کی صورتحال تھی جبکہ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے وفاقی وزیر نے اگست 2016ء میں سینٹ میں اعتراف کیا تھا، پاکستان کے پانچ کروڑ لوگ زہریلا پانی پی رہے ہیں جبکہ 80 فیصد عوام کو آلودہ پانی مل رہا ہے‘ حکومت نے 24 اضلاع کے 2 ہزار 8 سو7 دیہات سے پانی کے نمونے لئے پتہ چلا 82 فیصد نمونوں میں آلودگی اور زہریلا پن تھا‘ یہ ملک میں پانی کی صورتحال ہے‘ ہم لوڈ شیڈنگ ختم کر رہے ہیں‘ ہم دہشت گردی بھی کنٹرول کر لیں گے اور ہم اکانومی کو بھی بہتر بنا لیں گے لیکن ہم اگر اسی طرح گندہ پانی پیتے رہے تو پھر ہمارے لئے امن‘ اکانومی اور بجلی بے معنی ہو کر رہ جائے گی پھر ہمیں مارنے کیلئے دشمن کو گولی نہیں چلانا پڑے گی‘ ہم کینسر اور ہیپا ٹائٹس سے ہی مر جائیں گے‘ عوام کو صاف پانی کس نے فراہم کرنا ہے‘ یہ کس کی ذمہ داری ہے‘ ہم یہ سوال حکومت کے سامنے رکھ کر آج کے موضوع کی طرف آتے ہیں، ملک کی تینوں بڑی سیاسی جماعتوں نے الیکشن مہم شروع کر دیں‘ تینوں اپنی اپنی کامیابیوں کے بڑے بڑے دعوے کر رہے ہیں‘ یہ دعوے کتنے سچے اور کتنے جھوٹے ہیں‘ یہ ہمارا آج کا ایشو ہوگا جبکہ کل پاکستان پیپلز پارٹی اسلام آباد میں ایک بڑا جلسہ کرے گی‘ کیا یہ جلسہ پارٹی کو نئی زندگی دے سکے گا اورمیاں نواز شریف کا اصل نظریہ کیا ہے‘ ہم یہ بھی ڈسکس کریں گے‘ ہمارے ساتھ رہیے گا۔