اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) مسلم لیگ ن کی قیادت اور 2018کے انتخابات کے بعد وزارت عظمیٰ کیلئے ن لیگ کی اعلیٰ سطحی قیادت سر جوڑ کر بیٹھ گئی،ہر لمحہ بدلتی صورتحال سے نواز شریف کو سعودی عرب میں باخبر رکھا جا رہاہے، پارٹی بچانے کیلئے نواز شریف پارٹی صدارت شہباز شریف کو دینے پر رضامند، وطن واپس آنے سے گریز۔ تفصیلات کے مطابق صحافتی و
سیاسی حلقوں میں یہ بات ان دنوں زیر گردش ہے کہ مسلم لیگ ن کی قیادت اور 2018کے انتخابات کے بعد وزارت عظمیٰ کیلئے شہباز شریف کا نام فائنل ہو چکا ہے جبکہ اس سلسلے میں مزید مشاورت جاری ہے ، پارٹی معاملات اور ہر لمحہ بدلتی سیاسی صورتحال سے نواز شریف کو جو ان دنوں سعودی عرب میں ہیں باخبر رکھا جا رہا ہے۔ پارٹی کے اندرونی ذرائع کے مطابق پارٹی بچانے کیلئے نواز شریف پارٹی صدارت شہباز شریف کو دینے پر رضامند ہو گئے ہیں ۔ شہباز شریف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بھی اچھے تعلقات کار کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔ ان کے اس عہدے پر فائز ہونے سے حالیہ تلخیوں میں بھی یقینی کمی آئے گی دوسری طرف پارٹی کے ارکان پارلیمنٹ اور ورکر بھی اس تذبذب سے نکلنے کے خواہشمند ہیں۔ اس ضمن میں کوئی بھی جلد از جلد فیصلہ ان کیلئے باعث اطمینان ہوگا۔ سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ شہباز شریف کے پارٹی کے اعلیٰ عہدے پر فائز ہونے سے نہ صرف نواز لیگ اور اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات کار ہیں بہتری آئے گی بلکہ ملک میں جاری سیاسی بحران ختم ہونے میں مدد ملے گی۔ نواز شریف کے خلاف جاری مقدمات کی سماعت کے باعث اسٹیبلشمنٹ ان سے براہ راست بات کرکے سے کترار رہی ہے۔ یاد رہے کہ شہبازشریف ملکی تاریخ کے اس بدترین بحران میں کئی مرتبہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ
سے ملاقاتیں کر چکے ہیں جبکہ چند ملاقاتوں میں چودھری نثار بھی ان کے ساتھ تھے۔ نواز شریف سپریم کورٹ کے ذریعے نااہل قرار دیئے جانے کے بعد ایک آئینی ترمیم کے ذریعے دوبارہ پارٹی کے صدر منتخب ہو گئے تھے مگر اب سینٹ میں جس نئی ترمیم کو اس حوالے سے منظور کر لیا گیا ہے اس کے نتیجے میں وہ اپنی جماعت کی صدارت کے اہل نہیں رہیں گے۔ تاہم ابھی اس
بل نے قومی اسمبلی سے منظوری کے مراحل طے کرنے ہیں جس کے بعد صدر مملکت کے دستخطوں سے یہ قانون بن جائے گا۔بظاہر مسلم لیگ (ن) کو قومی اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل ہے مگر یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ ان کی جماعت میں دراڑیں پڑنے کے بعد کچھ نئے دھڑے سامنے آئے ہیں۔ جس میں سے ایک دھڑا ریاض پیر زادہ کی سربراہی میں ایکٹو ہے جبکہ دوسرا بظاہر غیر فعال
دھڑا چودھری نثار علی خان کے زیر اثر ہے۔ اگر جماعت کے 60 سے 70 ووٹ اگر اس مجوزہ ترمیم کے حق میں ووٹ نہیں دیں گے تو یہ نہ صرف ایک بڑی سیاسی ہزیمت ہو گی بلکہ بڑا ساسی بحران پیدا ہو جائے گا۔نواز شریف کے حوالے سے یہ خبریں گردش میں رہیں کہ انہوں نے سعودی شاہی خاندان کے اہم ارکان سے ملاقاتیں کی اور ان ملاقاتوں میں 2000ءکی طرح ان سے
”مدد“ طلب کی گئی ہے۔ نواز شریف کی سعودی عرب غیر متوقع آمد سے پہلے پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے نہ صرف سعودی عرب بلکہ عرب الامارات بھی دورہ کیا اور سعودی ولی عہد پرنس محمد بن سلمان اور متحدہ عرب امارات کے وزیراعظم شیخ محمد بن راشد المکتوم امیر دوبئی سے ملاقات کی۔ میاں نواز شریف اور جنرل قمر جاوید باجوہ کے سعودی عرب
کے دورہ کے بعد امریکہ وزیر خارجہ ٹلرسن کے دورہ سعودی عرب کو سیاسی حلقے اہمیت دے رہے ہیں۔ ان حالات میں جب میاں نواز شریف فی الحال وطن واپسی پر آمادہ نظر نہیں آتے پارٹی کا جلد محفوظ ہاتھوں میں منتقل کیا جانا ہر لحاظ سے مسلم لیگ (نواز) کی بقا کیلئے ضروری ہے۔