لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک )عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وزیر اعظم پاکستان جیسے اعلیٰ ترین عہدے پر براجمان شخصیت کی تنخواہ پاکستان میں سب سے زیادہ سرکاری تنخواہ ہوگی۔ جبکہ حقیقت بالکل اس کے بر عکس ہے۔نجی ٹی وی چینل ’’دنیا‘‘ کی رپورٹ کے مطابق عمومی رائے کے برعکس ، پاکستانی وزیر اعظم کی ماہانہ تنخواہ انتہائی کم سطح پر مقرر کی گئی ہے ، خاص طور پر اگر اس کا موازنہ پارلیمانی نمائندوں،
وفاقی وزرا، جج صاحبان اور دوسرے سرکاری افسروں کے پیکیج سے کیا جائے ۔ نہ صرف یہ بلکہ خطے کے کئی ممالک کے وزرائے اعظم کی تنخواہ بھی پاکستانی وزیر اعظم سے کئی گنا زیادہ ہے ۔ ذرائع کے مطابق وزیر اعظم کے تمام الاؤنسز سمیت ماہانہ تنخواہ ٹیکس کٹوتی کے بعد محض 140,000 (ایک لاکھ چالیس ہزار روپے ) بنتی ہے جبکہ سینیٹرز کی تنخواہ 400,000 (چار لاکھ روپے )، ایم این اے کی 350,000 (ساڑھے تین لاکھ روپے )، وفاقی وزیر کی 235,000 (دو لاکھ پینتیس ہزار) اور وزیر مملکت کی تنخواہ 215,000 ( دو لاکھ پندرہ ہزار روپے ) بنتی ہے ۔ مختلف عوامی نمائندگان کی تنخواہ پر نظر دوڑانے سے پتا چلتا ہے کہ شاید اسے مقرر کرتے وقت کوئی منطقی بنیاد سامنے نہیں رکھی جاتی ۔ وزیرا عظم جو حکومت کی اعلیٰ ترین شخصیت ہوتی ہے ، بظاہر بغیر کسی منطقی وجہ کے ا س کا ماہانہ مشاہرہ کم ترین ہے ۔ تجزیہ کاروں کے مطابق مناسب حد تک مقرر کی گئی تنخواہ کسی بھی ملازم کے کام کرنے کی صلاحیت پر مثبت طور پر اثر انداز ہوتی ہے ، کیونکہ مالی طور پر آسودگی بہت سی پریشانیوں کو ختم کرنے کا باعث بنتی ہے ۔ خاص طور پر اگر ایک وزیر اعظم مالی فکروں سے آزاد ہو تو وہ اپنا کام بہتر طور پر انجام دے سکتا ہے ۔ اگر وزیر اعظم نے اپنے دور حکومت میں دوسری ملازمت یا بالواسطہ طریقوں سے اپنی مالی ضروریات پوری
کرنی ہے تو یقیناً اس کی وزیر اعظم کے طور پر ذمہ داریاں متاثر ہو سکتی ہیں ۔ شاید اسی وجہ سے کرپشن کے راستے کھلنے کا خطرہ بھی منڈلانا شروع کر دیتا ہے ۔